اقوام متحدہ کی 15رکنی سلامتی کونسل میں اتفاق رائے سے منظور کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی "انسانی حقوق کا احترام اور بنیادی آزادیوں کے زوال میں اضافہ کی نشانی ہے۔"
Published: undefined
سلامتی کونسل نے کہا کہ ان پابندیوں کا ملک میں انسانی امدادی سرگرمیوں میں مصروف گروپوں بشمول اقوام متحدہ کی تنظیموں پر بھی خاطرخواہ اور فوری اثر پڑے گا۔"
Published: undefined
افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے ہفتے کے روز غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کردی تھی۔ انہوں نے اپنے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض خواتین اسلامی شرعی لباس کے ضابطوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی تھیں۔ طالبان نے یونیورسٹیوں میں خواتین اور سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر پہلے ہی معطل کر رکھی ہے۔
Published: undefined
طالبان نے ملازمت کے بیشتر شعبوں میں خواتین پر روک لگا دی ہے اور عوامی مقامات پر خواتین کو مکمل شرعی لباس پہننے کا حکم دیا ہے۔ خواتین کے پارکوں اور جم میں جانے پر بھی پابندی ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنے بیان میں کہا، "یہ پابندیاں طالبان کی جانب سے افغان عوام سے کیے گئے وعدوں نیز بین الاقوامی برادری کے توقعات سے متصادم ہیں۔"
Published: undefined
سلامتی کونسل نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن (یو این اے ایم اے) کو اپنی مکمل حمایت جاری رکھنے کا بھی وعدہ کیا۔ لاکھوں افغانوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے چار بڑے عالمی امدادی گروپوں نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ اپنی کارروائیاں اس لیے معطل کر رہے ہیں کیونکہ وہ خواتین عملے کے بغیر اپنے پروگرام چلانے سے قاصر ہیں۔
Published: undefined
اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مشن کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ ایسی پالیسیوں کے "خوفناک " نتائج برآمد ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خواتین اور امدادی تنظیموں پر طالبان کی پابندی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ "یہ ناقابل جواز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں اور انہیں ختم کیا جانا چاہیے۔"
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا،"خواتین اور لڑکیوں کو باہر رکھنے اور خاموش کرنے کے اقدامات افغان عوام کی صلاحیتوں کے لیے بہت زیادہ نقصان اور بڑا دھچکا ہیں۔"
Published: undefined
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا،"کوئی بھی ملک اپنی نصف آبادی کو پابندی کا شکار بنا کر سماجی اور اقتصادی طور پر ترقی نہیں کر سکتا بلکہ حقیقتاً اپنا وجود بھی قائم نہیں رکھ سکتا۔"
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا، "خواتین اور لڑکیوں پر لگائی جانے والی یہ ناقابل قبول پابندیاں نہ صرف تمام افغان شہریوں کے مصائب میں اضافہ کریں گی بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ اس سے افغانستان کی سرحدوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔" انہوں نے کہا کہ ایسی پالیسیوں سے افغان معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز