یہاں دو سو نوے ملین شادی شدہ بچے رہتے ہیں۔ ان میں پچانوے فیصد لڑکیاں ہیں۔ یعنی دنیا بھر میں جتنے بچے شادی شدہ ہیں، ان میں سے پینتالیس فیصد جنوبی ایشیا (نیپال، بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان وغیرہ ) میں ہیں۔
Published: undefined
افسوس اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ افغانستان کو چھوڑ کے دیگر تمام علاقائی ممالک کے آئین میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ ریاست ازخود بچوں کی فلاح اور محفوظ مستقبل کے لئے کبھی بھی بلا تامل خصوصی قانون سازی ( پاکستانی آئین کا آرٹیکل پچیس بھی یہ تحفظ و اختیار فراہم کرتا ہے) کر سکتی ہے۔
Published: undefined
ان ممالک میں شادی کی کم از کم عمر کے تعین کے لئے واضح قوانین بھی نافذ ہیں، جیسے نیپال میں شادی کے قابل لڑکے اور لڑکی کی کم ازکم عمر بیس برس مقرر ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں اٹھارہ برس ہے۔ افغانستان میں سابق حکومت نے یہ عمر اٹھارہ برس مقرر کی تھی مگر طالبان کی پالیسی غیر واضح ہے۔
Published: undefined
طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کا یہ فرمان تو موجود ہے کہ شادی کے معاملے میں زور زبردستی جائز نہیں البتہ اس بابت طالبان انتظامیہ کا موقف مبہم ہے کہ لڑکیوں کی قابلِ شادی کم ازکم عمر کیا ہونی چاہئے؟ نجی طور پر بہرحال یہی سوچ ہے کہ ماہواری کا آغاز جسمانی بلوغت کا پیمانہ ہے اور اس کے فوراً بعد لڑکی کی شادی جائز ہے۔ اس تعریف کی رو سے بلوغت کی عمر آٹھ سے تیرہ برس کے درمیان کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
افغانستان، جہاں اس وقت لگ بھگ پانچ فیصد خاندان ہی آسانی سے دو وقت کی روٹی جٹانے کے قابل ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم اور کام پر پابندی کے سبب پچانوے فیصد بچیاں گھروں میں بیٹھی ہیں، وہاں والدین اپنا معاشی بوجھ ہلکا کرنے کے لئے بیٹیوں کو پہلے کی نسبت بکثرت بیاہنے لگے ہیں، اگرچہ اکثر رشتے بے جوڑ ثابت ہوتے ہیں۔
Published: undefined
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق کم عمر شادی شدہ بچیوں کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اور اس اعتبار سے عالمی فہرست میں پاکستان چھٹے پائیدان پر ہے۔ حالانکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہیں، جو بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کی توثیق کر چکے ہیں۔ مگر آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت کم عمری کی شادی کا معاملہ صوبوں کے سپرد ہے۔ چنانچہ اب تک پورے ملک میں شادی کی کوئی متفقہ قومی عمر طے نہیں ہو پائی۔
Published: undefined
نوآبادیاتی دور میں بچوں کی شادی ممنوع قرار دینے والے ایکٹ مجریہ انیس سو انتیس کے مطابق شادی کے قابل بچی کی کم از کم عمر چودہ برس مقرر کی گئی۔ اس حد کو انیس سو اکسٹھ کے عائلی قوانین ایکٹ کے تحت بڑھا کے سولہ برس کر دیا گیا جبکہ لڑکے کی عمر اٹھارہ برس مقرر کی گئی۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں اسی پرانے قانون کو اپنایا گیا ہے۔ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں لڑکے اور لڑکی کی شادی کے قابل عمر یکساں یعنی اٹھارہ برس مقرر کی گئی ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی قابلِ دست اندازی پولیس اور ناقابلِ ضمانت جرم قرار پائی۔
Published: undefined
مگر یار لوگوں نے اس کا بھی توڑ نکال لیا۔ اگر لڑکی کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہو تو سندھ سے باقی تین صوبوں میں پہنچ کے نکاح کر لیا جاتا ہے۔ جعلی برتھ ریکارڈ بنوا کے لڑکی کی عمر اٹھارہ برس دکھا دی جاتی ہے۔ بالخصوص نابالغ غیر مسلم لڑکیوں کی جبری شادی کے معاملات میں مشکوک دستاویزات کا چلن اور پولیس کی پشت پناہی عام مسئلہ ہے۔
Published: undefined
پاکستان پر مسلسل بین الاقوامی دباؤ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی عمر ملک بھر میں یکساں مقرر کرنے کے لئے موثر قانون سازی کی جائے۔ اس سلسلے میں چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ مجریہ دو ہزار بائیس ایوانِ بالا سینیٹ میں کم از کم ایک سال سے پڑا ہوا ہے لیکن مذہبی لابی کے تحفظات اسے حتمی قانون بننے سے روک رہے ہیں۔ اس قانونی مسودے میں بین الاقوامی معیار کے مطابق لڑکے اور لڑکی کی مساوی عمر یعنی اٹھارہ برس تجویز کی گئی ہے۔
Published: undefined
جو لابیاں اس بل کی مخالف ہیں وہ اسے سیدھا سیدھا ”مغرب زدہ لبرل آزاد خیال‘‘ طبقات کا ڈرامہ قرار دیتی ہیں، جس کا مقصد ریاست کے اسلامی تشخص اور مشرقی روایات کو چیلنج کرنا ہے۔ مذہبی لابی کا موقف ہے کہ شادی کے لئے جسمانی بلوغت بنیادی شرط ہے البتہ شادی کے لئے لڑکی پر کسی بھی طرح کا جبر جائز نہیں۔
Published: undefined
اس کا کیا کیا جائے کہ اگر اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے یا بچی کا قومی شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس نہیں بن سکتا، اسے ووٹ کا حق حاصل نہیں، اس کی گواہی بالغ آدمی کی گواہی کے برابر نہیں، وہ کسی معاہدے پر خودمختار حیثیت میں دستخط نہیں کر سکتا تو اپنی شادی کا بہ رضا و رغبت فیصلہ اور شادی شدہ زندگی کے مستقبل کے بارے میں کیسے باہوش ہو حواس کسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے؟
Published: undefined
کم عمری کی شادی کے سبب ننانوے فیصد بچیاں آگے نہیں پڑھ سکتیں۔ وہ ایک بالغ لڑکی کے مقابلے میں گھریلو تشدد کا آسانی سے شکار ہو جاتی ہیں۔ کمسنی کے سبب شوہر یا اس کا خاندان اولاد کی پیدائش سمیت اہم فیصلوں سے انہیں باہر رکھتا ہے۔ ان پر محض خاندانی احکامات کا نفاذ ہوتا ہے۔ ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما مستقل دباؤ میں رہتی ہے اور اکثر کسی نہ کسی روگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایک بہتر مکمل بالغ ماں نہ بننے کے سبب بچوں کی بنیادی پرورش و تربیت بھی کماحقہہ کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
Published: undefined
اگر سرکار واقعی اس وبا کی روک تھام میں مخلص ہے تو سماجی آگہی کی مہم بھلے چلتی رہے مگر فوری کرنے کا کام یہ ہے کہ نادرا کے تصدیق شدہ کمپیوٹرائزڈ شناحتی کارڈ کے بغیر لڑکے لڑکی کی شادی قابلِ تعزیر جرم قرار دے کے تمام شریک ِ جرم افراد کو قانون کی گرفت میں لیا جائے۔ تب شائد اس سنگین مسئلے کی شدت کو بتدریج کم کیا جا سکے وگرنہ رواج و روایات کی آڑ میں یہ کام جاری رہے گا، جیسا کہ صدیوں سے جاری ہے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز