چین میں تین سال بعد پہلی مرتبہ سینکڑوں ایسے 'جاب فیئرز' کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جن میں روزگار کے متلاشی افراد ذاتی طور پر شرکت کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ پیش رفت چینی حکومت کی سخت کووڈ پالیسی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کے ایک ممکنہ بحران کی بھی علامت ہے۔
Published: undefined
پچھلے کئی سالوں کے مقابلے میں اس وقت چین میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے نوکری کے امیدوار افراد کے درمیان مقابلہ سخت ہے اور آجر ادارے اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
Published: undefined
کووڈ انیس کی وبا کے پہلے سال چین میں بیروزگاری کی شرح 6.2 فیصد تک پہنچ گئی تھی اور گزشتہ برس مئی میں یہ شرح معمولی سی کمی کے بعد 6.1 فیصد تھی۔ اب کووڈ سے متعلق پابندیاں ختم کیے جانے کے بعد صورتحال میں بہتری کی امید کی جا رہی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی معیشت میں مختلف شعبوں کی بحالی کی رفتار یکساں نہیں رہے گی اور اس لیے لیبر مارکیٹ کی بحالی بھی ناہموار ہو گی۔
Published: undefined
کووڈ انیس کے ابتدائی دور میں بھی چین کے شہری علاقوں میں نوجوانوں کی بیروزگاری کی شرح 13 فیصد تھی۔ پچھلے برس جولائی میں اس شرح میں مزید اضافہ دیکھا گیا، جب 15 سے 24 سال کے نوجوانوں میں ہر پانچ میں سے ایک بے روزگار تھا۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے محقق اور ایشین لیبر ریویو کے مینیجنگ ڈائریکٹر کیون لن کا کہنا تھا کہ اگر گزشتہ دو دہائیوں کی بات کی جائے تو چینی نوجوانوں کے لیے نئی ملازمت تلاش کرنے کا یہ غالباﹰ بدترین دور ہے۔
Published: undefined
چین میں بیس سال کی بے مثال ترقی کے باعث ایک عرصے تک لاتعداد ملازمتیں دستیاب تھیں۔ لیکن جب اس نے اپنی توجہ کم لاگت کی مینوفیکچرنگ سے ہٹا کر سروسز، خصوصاﹰ اعلی ٹیکنالوجی کی برآمدات پر مرکوز کی تو بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔
Published: undefined
یہ صورتحال مزید خراب تب ہوئی جب چینی حکومت نے کووڈ انیس کی وبا کے درمیان ٹیکنالوجی، تعلیم، تفریح اور ریئل اسٹیٹ کے شعبوں پر کریک ڈاؤن کا اعلان کیا، جو بڑے پیمانے پر ملازمین کی برطرفی کا باعث بنا۔ اس کی ایک مثال ٹینسنٹ، علی بابا اور ویبو جیسی کمپنیاں ہیں، جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت کرتی ہے، کی جانب سے حالیہ عرصے میں کیے گئے برطرفی کے اعلانات ہیں۔ اسی طرح 2021ء میں چائنا ایورگرینڈ کے قرضوں کے اسکینڈل کے نتیجے میں جب زمین کی قیمتیں گریں تو ایک ریئل اسٹیٹ ڈویلپر نے اپنے 90 فیصد ملازمین کو نوکری سے نکال دیا۔
Published: undefined
اس حوالے سے نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے وابستہ محقق ژاؤ لٹاؤ کا کہنا ہے کہ چونکہ چین میں زیادہ تر ملازمتیں نجی شعبے میں دی جاتی ہیں اس لیے آنے والے دور میں نوجوانوں کے روزگار کی صورتحال کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ آیا حکومت کی کووڈ کے بعد کی پالیسیاں موثر طریقے سے اس شعبے کو سپورٹ کرتی ہیں اور کاروبار کرنے والے افراد موجودہ کاروباری ماحول کے بارے میں کتنے پر اعتماد ہیں۔
Published: undefined
اس وقت عالمی معیشت سست روی کا شکار ہے اور کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سال کے اواخر میں عالمی کساد بازاری کے ایک دور کا بھی آغاز ہو گا۔ چناچہ آنے والے وقت میں چینی برآمدات کی طلب میں کمی کا بھی خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ خیال کہ کووڈ انیس کا خطرہ اب تک مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے اور یہ صورتحال بھی چینی معیشت کی بحالی کی رفتار کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔
Published: undefined
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ماضی میں چین نے کئی دہائیوں تک اپنی بیروزگاری کی اصل شرح کو چھپائے رکھا۔ اس دعوے کو وہ 1990ء کی دہائی میں ایشیا کے معاشی بحران کے بعد ایک سال کے عرصے میں چینی جامعات میں طالب علموں کے داخلوں میں 40 فیصد اضافے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2021ء تک چین کی سرکاری جامعات اور کالجوں میں انڈر گریجویٹ طالب علموں کی تعداد 44 ملین تک پہنچ گئی تھی جبکہ اس صدی کی شروعات میں ان کی تعداد صرف چار ملین تھی۔
Published: undefined
اس بارے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے وابستہ ڈوروتھی جے سولنگر کا کہنا ہے کہ جو چینی نوجوان کالج یا یونیورسٹی کے بجائے پشہ ورانہ تربیت کے اداروں (ووکیشنل اسکول) میں داخلہ لیتے ہیں، وہ کچھ خاص نہیں سیکھ پاتے۔ ڈوروتھی نے چین میں تعلیمی نظام کو پیش کردہ ملازمتوں کے ہم آہنگ بنانے پر بھی زور دیا۔
Published: undefined
نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کی حوصلہ افزائی کے لیے چینی حکومت نے ٹریننگ سبسڈیز اور اپرنٹس شپ سکیموں جیسے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ نئے گریجویٹس اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے مالی مدد بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن 1.4 بلین کی آبادی والے ایسے ملک میں جس کی اب تک کی ترجیح کووڈ انیس کا خاتمہ رہی ہو اس طرح کے اقدامات اور اصلاحات کے نتائج فوری طور پر نظر نہیں آئیں گے۔
Published: undefined
دوسری طرف کووڈ انیس کے دوران چینی نوجوانوں میں کارپوریٹ شعبے میں کیریئر بنانے کے بجائے کم آمدنی والے ایسے کام کرنے کا رجحان بڑھا ہے، جو ان کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہیں۔ اس صورتحال کو چینی زبان میں 'ٹینگ پنگ" اور انگریزی میں 'لائنگ فلیٹ' کہا جاتا ہے۔
Published: undefined
کیون لن کا کہنا ہے کہ 'لائنگ فلیٹ' نوجوانوں میں نوکری کے حصول کی کوششوں میں کمی کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا چینی نوجوان اس رویے کو اپنانے کے متحمل ہو سکتے ہیں، کیونکہ چین کوئی فلاحی ریاست نہیں جہاں بیروزگار افراد کی مدد کا نظام موجود ہو۔
Published: undefined
ٹینگ پنگ کا بڑھتا رجحان اس دور کے خاتمے کی بھی نشاندہی کرتا ہے، جس میں چین کے دیہی علاقوں میں رہنے والے باشندے اپنے خاندانوں کی مالی سپورٹ کے مقصد سے شہروں میں جا کر بستے تھے۔ ان کے برعکس آج اکثر چینی نوجوان کم تناؤ اور زیادہ فراغت چاہتے ہیں۔ تعلیم کے اختتام اور نوکری ملنے کے درمیان طویل عرصے میں انہوں نے اپنی ترجیحات تبدیل کر لی ہیں۔
Published: undefined
اس بارے میں ژاؤ لٹاؤ کہتی ہیں کہ کئی چینی نوجوانوں نے یا تو اپنے کاروبار شروع کر دیے ہیں یا وہ بطور فری لانسر کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، "یہ (تبدیلی) چینی معاشرے میں بدلتی اقدار کی عکاس ہے" اور اب وہاں لوگ ملازمت شروع کرنے میں تاخیر کو زیادہ آسانی سے قبول کر رہے ہیں۔
Published: undefined
چین میں نجی شعبے میں ملازمتوں کی کمی کے بعد سے اب بڑی تعداد میں نوجوان سول سروس کا امتحان بھی دے رہے ہیں حالانکہ کچھ عرصے پہلے تک وہ سرکاری ملازمت کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تھے۔
Published: undefined
لیکن کووڈ انیس کے باعث پھیلنے والی افرا تفری کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں سے وابستہ 'جاب سیکیورٹی' کا تصور بھی چین میں ختم ہو گیا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں چین کی مقامی حکومتوں نے اپنے بجت کا بڑا حصہ کووڈ انیس کے خاتمے کی کوششوں پر صرف کیا ہے اور ایسے میں انہیں مجبوراﹰ اخراجات میں کٹوتی کے لیے اقدامات لینے پڑے ہیں، جن میں ملازمتوں سے برطرفیاں شامل ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز