گزشتہ برس نومبر میں پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں 18 سالہ تیونسی لڑکی صبی السعیدی شوخ گلابی رنگ کی لپسٹک لگائے ایک لکڑی کی کشتی کی طرف جھُکی ہوئی نہایت خوشگوار موڈ میں دکھائی دے رہی تھی۔ پس منظر میں انتہائی پُرسکون نیلا سمندر پورے منظر کو نہایت پُر کشش بنا کر پیش کر رہا تھا۔
Published: undefined
اس کی ایک ویڈیو جس میں وہ مسکراتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس کے ساتھ ایک پاپولر ریپ ڈانس سے محضوظ ہوتے درجنوں تارکین وطن بھی ہنستے مسکراتے نظر آ رہے ہیں۔
Published: undefined
ایک ماہ بعد 21 سالہ شیما بن محمود نے بھی ایک ایسی ہی ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ اپنے منگیتر کے ساتھ تیونس سے اٹلی کی طرف جانے کے لیے تارکین وطن سے بھری ایک کشتی پر سوار نظر آ رہی تھی۔
Published: undefined
شیما بھی نہایت لہراتی بل کھاتی اس سفر پر رواں دکھائی دی جو ہزاروں انسانوں کے لیے موت اور زندگی کے بیچ کی ایک ایسی راہ ہوتا ہے جس پر چلنے والے اپنے اپنے آبائی وطنوں کو خیر باد کہہ کر 'آر یا پار‘ کے اصول پر چلتے ہوئے بہتر زندگی کی تلاش کی ایک آخری کوشش کرتے ہیں۔
Published: undefined
بحیرہ روم کا خطہ وطن ترک کرنے والے یا مہاجرت پر مجبور ہزاروں انسانوں کے لیے ایک علامت بن چُکا ہے۔ 'مسنگ مائیگرنٹس پروجیکٹ‘ کے مطابق 2021 ء میں بحیرہ روم میں دو ہزار اڑتالیس افراد لاپتہ ہوئے جبکہ 2014 ء سے اب تک بحریہ روم سے یورپ کی سرحوں میں داخل ہونے کے خواہش مند قریب 23 ہزار انسان لاپتہ ہیں۔
Published: undefined
تیونس تارکین وطن کی یورپی کی طرف روانگی کے اعتبار سے مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے لوگ شمالی افرقیہ سے نکل کر یورپ کی طرف اپنی قسمت آزمائی کے لیے نہایت دشوار گزار خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ تیونس کسی زمانہ میں ایک بہت ہی مشہور سیاحتی ملک ہوا کرتا تھا۔ اب یہ ملک معاشی زبوں حالی کا شکار ہے اور کووڈ انیس نے یہاں بے روزگاری کی شرح کو مزید بڑھا دیا اور اب یہ 18 فیصد سے بھی زیادہ چُکی ہے۔
Published: undefined
2021 ء میں حکام نے ایسے 23 ہزار تارکین وطن کو روکنے کی کوشش کی تھی جو تیونسی ساحلوں کو چھوڑ کر یورپ کی طرف بڑھنا چاہتے تھے۔ 2019 ء کے مقابلے میں یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔ دوہزار انیس میں پانچ ہزار کے قریب تارکین وطن کو تیونسی ساحل چھوڑنے سے روکا گیا تھا۔
Published: undefined
تیونس اور مراکش جیسے شمالی افریقی ممالک کی مقامی زبان میں 'حرکہ‘ بحیرہ روم کے پار کے سفر کو کہا جاتا ہے۔ ' گلوبل اینیشییٹیو اگینسٹ آرگنائزڈ کرائم‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق تیونس میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور عوام میں تیونسی لیڈران کی حالات میں بہتری لانے کی نا اہلی کے بارے میں بڑھتی ہوئی مایوسی دراصل مہاجرت یا ترک وطن کے رجحان میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
Published: undefined
گزشتہ جولائی میں ملکی صدر قیس سعید نے پارلیمان کو معطل کر دیا تھا اور جمہوری طاقتوں کو ختم کر کے ملک میں صرف اپنا حکم چلانے کی راہ ہموار کی تھی۔ تیونس کے عوام میں مستقبل کی طرف سے سخت مایوسی اور نا امیدی جنم لے چُکی ہے۔
Published: undefined
بحیرہ روم کے پار سفر کا اب تیونس میں ایک 'تمثیلی یا علامتی‘ نظریہ پیدا ہو چُکا ہے۔ اس کے لیے ' حرکہ‘ کی اصطلاح مقامی زبان میں استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ 'خطرناک کام کرنے سے پہلے ذاتی دستاویز کو برباد کر دینا یا جلا دینا۔‘ اب بحیرہ روم عور کر کے یورپی سرحدوں میں داخل ہونے کو 'حرکہ‘ کہا جاتا ہے۔
Published: undefined
تیونس کی ان دونوں نوجوان خواتین نے سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز پوسٹ کر کے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا۔ ان ویڈیوز میں یہ خواتین بحیرہ روم کے پار کے سفر کو انتہائی ' گلیمرائزڈ‘ یا پر تعیش اور رومانوی بنا کر پیش کرتی نظر آرہی ہیں۔
Published: undefined
ان کی ویڈیو میں ان کی انتہائی لاپروائی سے لامپا ڈوسا آمد اور وہاں سے آگے یورپی ممالک کی سفر و سیاحت، جگہ جگہ اہم تاریخی اور سیاحتی مقامات پر سیلفیاں لیتے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہت سے افراد نے اس پر تنقید کی ہے کہ یہ سب کچھ ، ایک ایسے سفر کو بہت ہی نارمل اور خوشگوار بنا کر پیش کیا گیا ہے جو ہر سال ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔
Published: undefined
جہاں السعدی اور بن محمود کی ویڈیو پوسٹ کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے وہاں کچھ عناصر اس کے دفاع میں یہ دلائل بھی پیش کر رہے ہیں کہ 'حرکہ‘ اس وقت شمالی افریقی عوام میں بڑھتی ہوسی مایوسی کے دوران واحد راستہ ہے ، اپنے ملک سے نکل کر کسی یورپی ملک کی طرف کوچ کرنے کا۔ تیونس اور مراکش جیسے شمالی افریقی ممالک میں یورپی یونین کی ویزا پابندیوں کی وجہ سے بہت زیادہ مایوسی پائی جاتی ہے۔
Published: undefined
فرانس نے حال ہی میں تیونسی باشندوں کے لیے ویزے کے اجراء میں 30 فیصد کٹوتی کر دی تھی جبکہ الجزائر اور مراکش کے باشندوں کے ویزے میں نصف کٹوتی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پیرس حکومت کا ان ممالک کی حکومتوں پر یہ الزام ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر فرانس آنے والے اپنے باشندوں کی واپسی یا ملک بدری کے سلسلے میں فرانس کے ساتھ تعاون میں ناکام رہے ہیں۔
Published: undefined
ایک ٹک ٹوک ایکٹیوسٹ کا کہنا تھا،'' اسے شرم آنا چاہیے؟ اس سے زیادہ شرمندگی ہمارے لیے ہے کہ اُس نے اٹلی پہنچنے کا راستہ نکال لیا اور ہم ابھی تیونس میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ شیما بن محمود کووڈ انیس کے سبب دو ہفتے قرنطینہ میں رہی، اٹلی کے ایک مرکز میں۔ اُس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ اُسے سفر کے خطرات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ لیکن مالی مشکلات اور ویزا حاصل کرنے میں اُس کی ناکامی نے اُسے 'حرکہ‘ پر مجبور کر دیا۔
Published: undefined
زوم پر کیے گئے ایک انٹرویو میں اُس نے کہا، ’’مجھے تیونس میں اپنے لیے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میرے پاس ہیئر ڈریسر کا ڈپلوما ہے مگر اس شعبے میں مجھے کوئی کام نہیں ملا ۔ جب مجھے ایک کام ملا بھی تو اُس کی تنخواہ یا اجرت صرف تین سو پچاس دینار یا 120 ڈالر بنتی تھی۔ اس رقم سے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ میں بمشکل پبلک ٹرانسپورٹ کا ٹکٹ اور اپنا لنچ خرید سکتی تھی۔‘‘
Published: undefined
شیما بن محمود اور صبی السعیدی کی پرورش ایک کم متوسط طبقے میں ہوئی۔ ان کے خاندان تیونس کے ساحلی شہر صفاقس میں آباد ہیں۔ شیما نے کہا کہ اُس نے صرف اپنی دوست کے ایک دوست کو کال کی۔ اُسے ساڑھے چار ہزار دینا جو ایک ہزار پانچ سو ساٹھ ڈالر کے برابر بنتا ہے، دیے اور ایک کشتی میں اپنے لیے ایک جگہ لے لی۔
Published: undefined
اس کشتی میں 23 دیگر مسافر بھی تھے۔ تصویروں میں وہ جتنا بھی مسکراتی نظر آئے اُس کا کہنا تھا کہ یہ سفر بہت ہی بھیانک تھا۔ اُس نے کہا، ''سفر غیر معمولی حد تک خوفناک تھا، سمندر انتہائی مشتعل تھا اونچی اونچی لہریں خوف دلا رہی تھیں۔ ہم نے دعا کی اور موت کے لیے خود کو تیار کر لیا۔ جب انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہم اٹلی کے پانیوں کے نزدیک پہنچ چُکے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا۔‘‘
Published: undefined
السعیدی اور بن محمود کے یورپ پہنچنے والے ہفتوں کے دوران ان دونوں نے اپنی خریداری، BMW کی سواریوں اور اطالوی کافی کی تصاویر کو شیئر کیا۔ ان کی پوسٹ کی ہوئی ویڈیوز لاکھوں صارفین نے لائیک اور شیئر کیں۔
Published: undefined
گرچہ ان دونوں خواتین کو تیونس میں اسپانسر مل گئے تھے جنہوں نے اپنی بیوٹی مصنوعات اور مقامی بزنس کے لیے ان دونوں کو سوشل میڈیا اشتہار کے لیے بروئے کار لایا اور جنہوں نے ان کے اخراجات اُٹھائے لیکن یہ امر ہنوز واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دونوں اٹلی اور فرانس سے بھی اپنی پوسٹس کے ذریعے پیسے کما رہی ہیں۔
Published: undefined
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں کی پوسٹس کے اثرات تیونس میں کافی حد تک نظر آ رہے ہیں۔ گلوبل اینیشییٹیو اگینسٹ آرگنائزڈ کرائم‘ سے منسلک ہربرٹ کہتے ہیں، ''ان لڑکیوں کی پوسٹس ایک ایسے سفر کی توجیح پیش کرتی ہیں جو بہت زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ یہ بہت سے ترک وطن کے خواہش مندوں کے خوف کا مقابلہ بصری انداز سے کرتی ہیں۔ ایسی حقیقت دکھاتی ہیں جس کی مدد سے لوگ اپنا خوف دور کر سکتے ہیں۔ یہ ملک چھوڑنے والے لوگوں کے ذہنی بوجھ کو کم کرتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined