انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی تنظیم 'سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ "ترک سرحد کے قریب شامی حکومت کی متعدد فوجی چوکیوں پر ترکی فضائیہ نے حملے کیے جس میں سترہ جنگجو مارے گئے۔" بیان میں تاہم یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق حکومت یا کرد فورسز کس سے تھا۔
Published: undefined
اس دوران سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا (SANA) نے فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ترکی فضائیہ کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں کم از کم تین شامی فوجی شامل تھے جب کہ چھ دیگر زخمی ہوگئے۔
Published: undefined
سانا نے مزید کہا، "ہمارے مسلح افواج کی نگرانی والے کسی بھی فوجی چوکی پر کسی بھی حملے کا تمام محاذوں پر براہ راست اور فوراً جواب دیا جائے گا۔"
Published: undefined
یہ حملے کردوں کے قبضے والے قصبے کوبان کے قریب کیے گئے، جہاں ترک فورسز اور کرد قیادت والی شامی ڈیموکریٹک فورسز(ایس ڈی ایف) کے درمیان گزشتہ رات جھڑپیں ہوئی تھیں۔
Published: undefined
ترک وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کرد فورسز نے گزشتہ رات ترکی کے علاقے کے اندر بھی حملے کیے تھے جس میں کم ازکم ایک فوجی مارا گیا۔
Published: undefined
وزارت دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ، "انقرہ نے شام کے اندر جوابی حملے کر کے تیرہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ اس خطے میں آپریشن اب بھی جاری ہے۔"
Published: undefined
خیال رہے کہ انقرہ کرد عسکریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ اس مسئلے پر 19جولائی کو ایران اور روس کے ساتھ ترکی کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی تھی جو ناکام رہی۔ اس کے بعد ترکی نے شام کے کرد کنٹرول والے علاقوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔
Published: undefined
کرد عسکریت پسندوں کے خلاف منگل کے روز ایک علیحدہ کارروائی کے دوران کرد کنٹروں والے حسکہ علاقے میں ترکی نے ڈرون حملہ کیا جس میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوگئے۔
Published: undefined
شامی کرد کی عملا ً فوج ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ جولائی کے بعد سے ترکی کے حملوں میں اس کے کم از کم 13 اراکین ہلاک ہوچکے ہیں۔
Published: undefined
ترکی شامی صدر بشار الاسد کی مخالفت کرتا ہے اور ان کو معزول کرنے کے لیے باغیوں کی حمایت کر رہا ہے۔ وہ پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بھی کھول رہا ہے۔
Published: undefined
تاہم ترک وزیر خارجہ میلود چاوش اولو نے گزشتہ ہفتے شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی اپیل کی تھی۔ ان کے اس بیان کو اسد حکومت کے تئیں انقرہ کی دیرینہ مخاصمت میں نرمی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اس نے شامی اپوزیشن اور باغی گروپوں کو ناراض کر دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined