سماج

ترکی سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے پر رضامند ہو گیا

نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ ترک صدر ایردوآن سویڈن کے نیٹو فوجی اتحاد میں شمولیت کی قرارداد ترک پارلیمان میں بھیجنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اسٹولٹن برگ نے اسے ایک تاریخی دن قرار دیا۔

ترکی سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے پر رضامند ہو گیا
ترکی سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے پر رضامند ہو گیا 

اسٹولٹن برگ نے یہ اعلان صدر ایردوآن اور سویڈش وزیر اعظم اولف کرسٹرسن کے درمیان لتھوانیا میں نیٹو سربراہی کانفرنس کی شروعات سے قبل پیر کی شام کو ہونے والی ملاقات کے بعد کیا۔ انہوں نے اسے ایک "تاریخی دن" قرار دیا۔

Published: undefined

اس سلسلے میں تینوں رہنماوں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان کے بعد نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے کہا، "مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ صدر ایردوآن نے سویڈن کے لیے الحا ق کے پروٹوکول کو جلد از جلد گرینڈ نیشنل اسمبلی میں بھیجنے اور توثیق کو یقینی بنانے کے لیے اسمبلی کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔" انہوں نے تاہم یہ بتانے سے انکار کیا کہ تر ک پارلیمان سویڈن کے الحاق کی توثیق کب کرے گی۔

Published: undefined

سویڈش وزیر اعظم کرسٹرسن نے اس پیش رفت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ہم نے نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی باضابطہ توثیق کی جانب ایک بڑا قدم بڑھایا ہے۔ یہ سویڈن کے لیے ایک اچھا دن ہے۔"

Published: undefined

خیال رہے کہ ترکی کے اعتراضات کے باعث سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کا معاملہ ایک سال سے رکا ہوا تھا۔ ترکی سویڈن پر کرد عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ نرمی برتنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ گزشتہ ما ہ اسٹاک ہولم میں ایک شخص کی جانب سے قرآن نذر آتش کرنے کے بعد ترکی نے نیٹو میں شمولیت سے متعلق سوئیڈن سے بات چیت ایک بار پھر معطل کردی تھی۔ اتحاد میں شمولیت کے لیے درخواستوں کو نیٹو کے تمام ارکان کی جانب سے منظور کیا جانا ضروری ہے۔ فن لینڈ کو اپریل میں منظوری دی گئی تھی لیکن ترکی اور ہنگری نے سویڈن کی درخواست کو منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔

Published: undefined

اچانک اعلان

سویڈن اور اس کے پڑوسی فن لینڈ نے فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد فوجی عدم وابستگی کی اپنی دیرینہ پالیسیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نیٹو فوجی اتحاد میں شمولیت کی درخواست دی تھی۔ لیکن نیٹو کے دو اراکین ترکی اور ہنگری اس فوجی اتحاد میں اسٹاک ہولم کی شمولیت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردی تھی۔

Published: undefined

پیر کے روز ایردوآن نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت کرنے کے بدلے میں اپنے مطالبات کی ایک فہرست بھی پیش کی۔ انہوں نے کرسٹرسن سے ملاقات سے چند گھنٹے قبل کہا کہ اگر یورپی یونین سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانا چاہتا ہے تو اسے ترکی کو بھی یورپی یونین کا رکن بنانا ہوگا۔

Published: undefined

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا تھا، "اس سے قبل کہ ترک پارلیمان سویڈن کی نیٹو اتحاد کی رکنیت کی منظوری دے، یورپی یونین کو اپنے بلاک میں ترکی کے لیے دروازے کھولنے چاہییں۔" یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی بات چیت سن 2005 میں شروع ہوئی تھی لیکن ایردوآن کی حکومت میں جمہوری قدروں اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے سن 2016 کے بعد سے بات چیت کا سلسلہ غیر معینہ مدت کے لیے رک گیا تھا۔

Published: undefined

پیر کے روز ہی ایردوآن کی یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ مائیکل نے بعد میں ٹوئٹر پر لکھا کہ انہوں نے اور ایردوآن نے "ہمارے تعلقات کونئی توانائی بخشنے اورباہمی تعاون دوبارہ شرو ع کرنے کے حوالے سے مواقع تلاش" کیے۔ کرسٹرسن کا کہنا تھا، "سویڈن کی طرف سے ہم یورپی یونین اور ترکی کے درمیان قریبی تعلقات کی وکالت کرتے رہیں گے۔"

Published: undefined

بائیڈن نے ایردوآن کے فیصلے کا خیر مقدم کیا

امریکی صدر جو بائیڈن نے سویڈن کی نیٹو اتحاد میں شمولیت پر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کی رضامندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق بائیڈن نے کہا، "میں یورو۔ اٹلانٹک علاقے میں دفاع اور تدارک کو بہتر بنانے کے لیے صدر ایردوآن اور ترکی کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔" انہوں نے کہا، "میں وزیر اعظم کرسٹرسن اور سویڈن کو نیٹو کے 32 ویں اتحادی رکن کے طورپر خیر مقدم کرنے کا منتظر ہوں۔"

Published: undefined

قبل ازیں صدر جو بائیڈن نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے لتھوانیا جاتے ہوئے ایردوآن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تاکہ ترکی کی جانب سے سوئیڈن کی نیٹو اتحاد میں شمولیت پر رضامندی کی راہ ہموار ہو سکے۔

Published: undefined

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک نے بھی اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، "سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کے لیے ترکی کی جانب سے توثیق کے لیے بالآخر راستہ صاف ہوگیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ہماری مشترکہ کوششیں رنگ لائیں۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے اسے "سویڈش عوام اور یورپ کی مشترکہ سکیورٹی اور دفاعی پالیسی کے لیے اچھی خبر" قرار دیا۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک اور فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرینا کولونا نے بھی ترکی کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined