سماج

فرانسیسی انتخابات میں اسلام پر تنقید کا بڑھتا ہوا رجحان

فرانسیسی معاشرے میں اسلام کا کردار وہاں جاری صدارتی انتخابی مہم میں ایک اہم ’میدان جنگ‘ بن کر اُبھرا ہے۔ بہت سے فرانسیسی مسلمانوں کو ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے خلاف بیان بازی نے بے چین کر دیا ہے۔

فرانسیسی انتخابات میں اسلام پر تنقید کا بڑھتا ہوا رجحان
فرانسیسی انتخابات میں اسلام پر تنقید کا بڑھتا ہوا رجحان 

نیشنل ریلی (آر این) کی انتہائی دائیں بازو کی امیدوار میرین لی پین اور خاص طور پر سابق پنڈت ایرک زیمور نے سلامتی اور دہشت گردی کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اکثر اسلام کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

Published: undefined

ان کے پیغامات کی تائید بعض اوقات قدامت پسند دائیں بازو کے عہدیداروں اور صدر ایمانوئل ماکروں کے اتحادی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کے حوالے سے اس قدر شدید مہم کا فرانس کے ہمسایہ ممالک برطانیہ اور جرمنی میں تصور کرنا ہی مشکل ہے حالانکہ ان دونوں ملکوں میں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی اقلیت آباد ہے۔

Published: undefined

تاہم فرانس میں ابھی تک الجزائر کی جنگ آزادی اور حال ہی میں سن 2015 کے جہادی حملے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ زیمور صدر ماکروں کے خلاف دوسرے راؤنڈ کے رن آف تک پہنچنے کے لیے لی پین اور روایتی دائیں بازو کی امیدوار والیری پیکریس کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے پیر کے روز شمالی فرانس کے روبائے قصبے کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ''پیرس سے دو گھنٹے کے فاصلے پر واقع افغانستان‘‘ ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے شور مچا ہوا ہے۔

Published: undefined

انہوں نے فرانس انٹر ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''فرانسیسی شہری، جو مسلمان ہیں، فرانسیسی طریقے سے زندگی گزاریں اور یہ نہ سمجھیں کہ شرعی قانون جمہوریہ کے قوانین سے برتر ہے۔‘‘ ان کے ایسے تبصروں نے پہلے سے ہی موجود بے چینی کے ماحول میں اضافہ کر دیا ہے۔

Published: undefined

سن 1905 میں فرانس میں چرچ اور ریاست کی باضابطہ تقسیم نے سیکولرازم کو جدید جمہوریہ کی شناخت کا سنگ بنیاد بنایا تھا۔ پھر ماکروں حکومت نے 2021ء میں ایک نیا قانون متعارف کرایا تھا، جسے صدر نے ''اسلامی علیحدگی پسندی‘‘ روکنے اور ملکی شناخت کے دفاع کے لیے اہم قرار دیا تھا۔

Published: undefined

فرانس اور مسلمان

نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے سے 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں فرانس کی طرف بڑے پیمانے پر ہجرت کا آغاز ہوا۔ تاہم 1970ء کے دہائی میں آنے والے معاشی بحران نے ان مہاجرین کے معاشی ترقی پر منفی اثرات مرتب کیے۔

Published: undefined

برطانیہ اور جرمنی بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے دوچار ہوئے لیکن کسی بھی دوسری یورپی نوآبادیاتی طاقت نے ایسی جنگ نہیں لڑی، جس کی درندگی، مدت اور نتائج کا موازنہ الجزائر کی جنگ آزادی سے کیا جا سکے۔

Published: undefined

سیاسیات کے ماہر پاسکل پیرینیو کا کہنا ہے، ''ہجرت کا مسئلہ خاص طور پر فرانس میں موجود ہے کیونکہ یہ الجزائر کی جنگ کی بھیانک یاد کو جگاتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اس نے اجتماعی شعور میں گہرے داغ چھوڑے ہیں۔‘‘

Published: undefined

مسلمان خوف کا شکار

لیکن فرانس میں اسلام پر عشروں سے بحث جاری ہے اور اس ملک میں سن 2011ء میں خواتین کے نقاب کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن بہت سے مسلمان، جو ملک کی آبادی کا تقریباً نو فیصد ہیں، رواں صدارتی انتخابات میں بیان بازی کی موجودہ سطح سے حیران ہیں۔

Published: undefined

تیونسی نژاد ماہر نفسیات اور کتاب ''فرانس میں ایک عرب عورت‘‘ کی مصنفہ فاطمہ بوویٹ ڈی لا میسوننیو کا کہنا ہے، '' کبھی کبھی میں خود سے کہتی ہوں کہ کاش کوئی سمجھ سکے کہ یہ کتنا پرتشدد بیانیہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''سچ کہوں تو بعض اوقات ہم صرف عربوں کے درمیان ملنا چاہتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو بتا سکیں کہ حالات کتنے برے ہو چکے ہیں۔‘‘

Published: undefined

دائیں بازو کی میرین لی پین سن 2002ء کے صدارتی انتخابات میں دوسرے راؤنڈ تک پہنچ گئی تھیں۔ ان کے والد ژاں میری لی پین کا بھی کہنا ہے کہ اسلام اور تارکین وطن کے خلاف بار بار کے یکطرفہ بیانات نے فرانس کے بیشتر حصوں کو چونکا دیا ہے۔

Published: undefined

فرانسیسی مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ اس طرح کی بیان بازی کو اب معمول بنا لیا گیا ہے اور اس بیانیے کی میڈیا کی خبروں اور سوشل نیٹ ورکس پر حمایت بڑھ رہی ہے۔ وسطی فرانس کے علاقے لورے کی 38 سالہ سوشل ورکر فاطمہ کا کہنا تھا، ''میں بہت برا محسوس کرتی ہوں، بہت برا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''میرا یہ تاثر ہے کہ آج کا فرانس میرے دادا دادی پر تھوکتا ہے، جنہوں نے اسے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کی، میرے والدین پر، جو اس کی سڑکیں بنانے آئے تھے اور مجھ پر، جس نے جمہوریت اور انضمام کے تمام اصولوں کا احترام کیا۔‘‘

Published: undefined

فاطمہ کا دکھ بھرے انداز میں کہنا تھا، ''کچھ دن پہلے میری پانچ سالہ بیٹی نے مجھے بتایا کہ اسے عرب ہونا پسند نہیں ہے۔‘‘ فاطمہ کے مطابق انہیں ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ باقی لوگ ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔

Published: undefined

کامل ایک خیراتی انجمن کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق 13 نومبر 2015 کی رات کو ہونے والے حملوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، ''میں نے اپنے ایسے بہت سے دوستوں سے راہیں جدا کر لیں، جو مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے لگے تھے۔‘‘

Published: undefined

ممتاز ماہر عمرانیات احمد بوبکر کے لیے ''ایک ڈیم ٹوٹ گیا ہے‘‘ اور اب سیاسی شخصیات کی جانب سے مسلمانوں پر انضمام میں ناکامی کا الزام لگانے والوں کو ''روکنے والوں کی مکمل کمی‘‘ ہے۔

Published: undefined

ان کا کہنا ہے، ''تاہم میں اس بات پر قائل نہیں ہوں کہ فرانسیسی معاشرہ اتنا ہی نسل پرست ہے جتنا کہ ہم اسے کہتے ہیں۔ یہ سیاست دان ہی ہیں، جو نتائج کا اندازہ لگائے بغیر عوام میں نسل پرستی پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined