سماج

پاکستان میں اب تک کم عمری کی شادیوں کا رواج کیوں؟

حال ہی میں پاکستان کے مغربی صوبے بلوچستان میں ایک پانچ سالہ بچی کی شادی نے بچوں کے تحفظ اور خاندانی معاملات میں قدامت پسند مذہبی شخصیات کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے۔

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس 

اکتوبر میں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پولیس نے اطلاع ملنے پر دو افراد کو اس وقت گرفتار کیا، جب انہوں نے ایک پانچ سالہ بچی کی زبردستی شادی کروائی۔ لڑکی کے چچا کا کہنا ہے کہ ایک مقامی فرد نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے بچی کے رشتے پر اصرار کیا اور لڑکی کے والد پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔

Published: undefined

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ''ہم نے بارہا ان کو سمجھایا تھا کہ لڑکی شادی کرنے کے لیے ابھی کم عمر ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس 'وٹہ سٹہ کی شادی‘ کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی اور پھر پولیس کو مطلع کیا گیا۔

Published: undefined

مقامی پولیس چیف نے بتایا کہ پولیس نے شادی کے انتظامات کرنے والے ذمہ داروں کو گرفتار کر لیا ہے اور مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اس نکاح خواں کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں، جس نے یہ نکاح پڑھایا۔

Published: undefined

تاہم پاکستان میں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریبا 19 ملین کم عمر دلہنیں موجود ہیں۔ اس ادارے کے ایک اندازے کے مطابق تقریبا 4.6 ملین بچیوں کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی جبکہ 18.9 ملین بچیوں کی شادیاں 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کر دی گئیں۔

Published: undefined

پاکستان کے قبائلی علاقے، کم عمری کی شادی کا رجحان

لاہور میں مقیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے تعلق رکھنے والی طاہرہ حبیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2022ء میں کم عمری کی شادی کے 99 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے کیوں کہ ایسے خاندانوں کو بدنامی کا خوف ہوتا ہے۔ طاہرہ حبیب کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں۔

Published: undefined

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی سابق قانون ساز یاسمین لہری نے بتایا کہ صوبے کے قبائلی اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی شادیاں تقریبا 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں، ''شہری علاقوں میں آگاہی ہونے کے سبب لڑکیوں کی شادی 18 سال یا اس سے زائد عمر میں کی جاتی ہے لیکن صوبے کے باقی حصوں میں صورتحال کافی سنگین ہے‘‘۔

Published: undefined

ان کا کہنا ہے کہ غربت اور معاشی عوامل اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اکثر کم عمر لڑکیوں کی وٹہ سٹہ کی شادی خاندانوں کے درمیان اس لیے طے پاتی ہے کہ ان نوجوان بچیوں سے گھر کا کام کاج یا مزدوری کرائی جا سکے۔

Published: undefined

شادی کی کم از کم عمر کی حد مقرر کرنے پر مذہبی جماعتوں کی مخالفت

پورے پاکستان میں سول سوسائٹی کم عمری کی شادیوں کے خاتمے اور سخت قانون سازی کے لیے سرگرم ہے۔ اس حوالے سے وہ اس رویے کی تبدیلی کے لیے مذہبی جماعتوں، حکومت اور مختلف برادریوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ پاکستانی قانون ساز کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ شادی کی کم از کم حد مقررکرنے کی قانون سازی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے۔

Published: undefined

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب اس حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو مذہبی سوچ رکھنے والے ممبران نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا شیرانی شادی کی کم از کم حد مقرر کیے جانے والی قانون سازی کی پرزور مخالفت کرتے ہیں۔کونسل نے حکومت کو مشورہ دیا ہےکہ قانون سازی اسلام کے مطابق کی جائے۔

Published: undefined

کونسل نے 2014ء میں کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے قانون کو 'غیر اسلامی‘ قرار دیا، جس کی وجہ سے میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔ سابق قانون دان یاسمین لہری نے بتایا کہ جب شادی کی کم ازکم حد مقرر کرنے کا بل بلوچستان اسمبلی میں پیش کیا گیا تو مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔

Published: undefined

سابق قانون ساز سمیعہ راحیل قاضی کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر کی حد 18 سال ہونی چاہیے۔ مغربی اقدار کی وکالت کرنے اور مذہب کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس مسئلہ کے جڑ سے خاتمے کے لیے ایک بڑی اور موثر آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined