بڑی بیٹی ہونے کے ناطے اس نے بہت چھوٹی عمر میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ اپنے والد کے لیے کبھی بوجھ نہیں بننا ہے بلکہ ان کا بازو بننا ہے۔ اسکول اور کالج میں ہمیشہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پھر گریجویشن کے لیے بیرون ملک ایک بہترین اسکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
Published: undefined
ناعمہ مطمئن تھی کہ اب وہ اپنے والد کے لیے بوجھ نہیں بلکہ ان کا بوجھ بانٹنے کے قابل ہونے جا رہی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پھپھو اور تایا کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ لڑکی ''آزاد‘‘ ہے۔ اتنی آزادی دینا ہرگز مناسب نہیں۔ سیدھا سادہ بی اے کر لے تو بیاہ کر دو۔
Published: undefined
بہن بھائیوں کی مخالفت نے ناعمہ کے ابو کو سوچ میں ڈال دیا تھا اور ناعمہ یہ سوچ کر حیران تھی کہ یہ سب لوگ ہمارے گھر کے مسائل حل کرنے میں تو کبھی آگے نہیں آئے لیکن آج جب ہم اپنی زندگی بدلنے کے قابل ہونے جا رہے ہیں تو یہ لوگ دخل اندازی کرنے پہنچ گئے۔ دوسروں کی زندگی میں دخل در معقولات ہمارے معاشرے کا ایک ایسا پہلو ہے، جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک کم تو ہوا ہے لیکن ابھی بھی بےشمار لوگوں کو ان رویوں کا سامنا ہے۔
Published: undefined
یہ صورتحال اس وقت مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے کہ جب ایسے لوگ آپ کی زندگی میں دخل اندازی شروع کر دیں، جن کا کچھ لینا دینا ہی نہ ہو۔ مثلاً ساتھ کام کرنے والے یا پبلک ٹرانسپورٹ میں ساتھ سفر کرنے والے لوگ بھی اپنے مشوروں سے نا صرف نوازنا شروع ہو جاتے ہیں بلکہ بضد ہوتے ہیں کہ ان کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔
Published: undefined
بے جا قسم کے سوالات کر کے دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کے تجسس کے مارے لوگ ہم سب کے اردگرد موجود ہوتے ہیں، جنہیں ہماری زندگی کی فکر شاید ہم سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی اپنی زندگیوں کے معاملات بے شک کتنے ہی گڑبڑ کیوں نہ چل رہے ہوں لیکن وہی بات ہے کہ انہیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
Published: undefined
دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں فیصلہ دینے کے بجائے اگر اپنی زندگی کے بارے میں فکر کر لی جائے تو شاید کچھ مسائل سے نمٹا جا سکے۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی کے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتا ہے، ''قبر کا حال مردہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘ کے مصداق ہر شخص کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کلّی اختیار حاصل ہے۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ اپنی زندگی سے زیادہ دوسرے کی زندگی کے بارے میں فیصلہ دینے کا شوق اگلے کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔
Published: undefined
خاندانوں کے مابین یہ صورتحال تو کوئی نئی بات نہیں لیکن آج کا دور برقی رابطوں کا دور ہے تو اب سوشل میڈیا پر بھی ان رویوں کا سامنا ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ چاہے خاندان کے لوگ ہوں یا مشہور شخصیات، ہر ایک کی زندگی میں دخل اندازی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔
Published: undefined
حالیہ واقعات میں عامر لیاقت کی نجی زندگی سے متعلق لوگوں کے رویے انتہائی ناشائستہ تھے۔ اسی طرح دیگر کئی مثالیں موجود ہیں، جب لوگوں کی دخل اندازی نے کسی کو موت کے منہ تک پہنچا دیا۔ انسان کی شخصیت پر اس کے معاشرے کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم میں سے اکثریت ان تمام باتوں کو معیوب سمجھنا تک چھوڑ چکی ہے۔
Published: undefined
یوں معلوم ہوتا ہے کہ دخل در معقولات ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔ ہم کسی کی بھی ذاتی زندگی پر بغیر جھجک کےکچھ بھی بہت آرام سے بول دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کی جوان بیٹی ہے تو سوال ہو گا کہ ''اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ ہم نے اتنے رشتے بتائے، پتا نہیں کس شہزادے کا انتظار ہے تم لوگوں کو۔‘‘
Published: undefined
شادی شدہ جوڑے سے پہلا سوال ہو گا بچے کتنے ہیں؟ ایک ہے تو کیوں؟ صرف ایک کیوں ہے؟ ایک بھی نہیں ہے تو''ارے بابا علاج کیوں نہیں کرایا۔ ہمارے تجویز کردہ ڈاکٹر کو دکھاؤ۔‘‘ پھر اگلی ملاقات میں باقاعدہ ناراضی کا اظہار ہو گا کہ ''کسی کی بات سنتے ہی نہیں ہو تم لوگ۔‘‘
Published: undefined
ایسے بےشمار تکلیف دہ رویے لوگوں کو تنہائی کا شکار کر دیتے ہیں۔ معقول لوگ، جو ایسے رشتہ داروں سے الجھنا پسند نہیں کرتے، اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر لیتے ہیں۔ بلکہ انتہائی صورت میں لوگوں کے خودکشی کی حد تک جانے کی مثالیں بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔
Published: undefined
خدا راہ اس بات کی نزاکت کو سمجھیں کہ ہر شخص اتنے مضبوط اعصاب کا مالک نہیں ہوتا کہ اپنی ذاتی زندگی میں دوسروں کی دخل اندازی کو حوصلے سے روک سکے۔ مشرقی معاشرے کی خوبصورتی اس بات میں ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔
Published: undefined
ایک دوسرے کا احساس کرتے ہیں اور دوسرے کی پریشانیوں سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہی تعلق حسد اور طنز میں تبدیل ہو جائے یا بےجا دخل اندازی ہو تو دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی بھرپور جیئں اور دوسروں کو ان کی زندگی جینے دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی دخل اندازی کسی کو اپنی زندگی کے اختتام کا فیصلہ لینے پر مجبور کر دے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز