راجستھان کی کالو، کملیش اور ممتا مینا جہیز کے لیے تشدد اور خودکشی کا تازہ ترین شکار بن گئیں۔ تینوں کی شادی ایک ہی خاندان میں ہوئی تھی جہاں انہیں جہیز لانے کے لیے مسلسل اذیتیں دی جاتی رہیں۔ چند دنوں قبل ایک ہی کنویں سے ان کی لاشیں ملیں۔ کالو نے اپنے ایک چار سالہ بیٹے اور ایک نو زائیدہ کے ساتھ خود کشی کرلی جبکہ کملیش اور مینا حمل سے تھیں۔ انہوں نے ایک نوٹ چھوڑا تھا جس میں اپنی موت کے لیے اپنے سسرال والوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
Published: undefined
ان تینوں بہنوں کے رشتہ داروں نے بتایا کہ ان کے سسرال والے جہیز میں مزید رقم کا مسلسل مطالبہ کررہے تھے جو ان کے والد پورا نہیں کرپارہے تھے۔ اس وجہ سے سسرال والے تینوں پرمسلسل تشدد کرتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تینوں بہنیں اچانک لاپتہ ہوگئیں لیکن بعد میں ان میں سے ایک کی طرف سے واٹس ایپ پر ایک میسج ملا جس میں لکھا تھا،"ہمارے سسرال والے ہماری موت کے ذمہ دار ہیں۔ ہم ایک ساتھ جان دے رہے ہیں کیونکہ یہ روز روز مرنے سے بہتر ہے۔"
Published: undefined
جے پور کے ایک سینیئر پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس معاملے کی جانچ کررہی ہے اور فی الحال اسے خودکشی کا کیس مانا جارہا ہے۔ خودکشی کرنے والی بہنوں کے والد سردار مینا نے بتایا کہ ان کی بیٹوں کی زندگی جہنم بنادی گئی تھی۔ ان کی بیٹیاں آگے پڑھنا چاہتی تھیں لیکن انہیں تعلیم حاصل کرنے سے بھی منع کردیا گیا اور پیسوں کے لیے مسلسل پریشان بھی کیا جاتا تھا۔
Published: undefined
پیشے سے کسان سردار مینا نے اے ایف سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہم نے سسرال والوں کو پہلے ہی بہت ساری چیزیں دی تھیں۔ وہ سارا سامان آپ ان کے گھر میں دیکھ سکتے ہیں۔" اس میں پلنگ، ٹیلی ویژن سیٹ اور فرج شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،"میری چھ بیٹیاں ہیں، میرے پاس دینے کی بھی ایک حد ہے میں آخر کتنا دے سکتا ہوں۔ میں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلائی وہ بھی بڑی مشکل سے۔"
Published: undefined
پولیس نے تینوں بہنوں کے شوہروں، ساس اور بھابھی کوجہیز کے لیے استحصال اور اذیت کے الزام کے تحت گرفتار کرلیا ہے۔ اے ایف پی نے سسرال والوں کے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کامیابی نہیں ملی۔
Published: undefined
بھارت نے 60 بر س سے بھی پہلے جہیز کے لین دین کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جاسکتی ہے۔ تاہم جہیز لینے اور دینے کا سلسلہ بالخصوص دیہی علاقوں میں اب بھی برقرار ہے۔ خواتین کو اقتصادی طور پر بوجھ سمجھنا اور بہو کے طور پر انہیں قبول کرنے کے لیے رقم کا مطالبہ کرنا جہیز کی لعنت کے برقرار رہنے کی اہم اسباب ہیں۔
Published: undefined
مقامی نیوز چینلوں اور اخبارات میں جہیز کے لیے قتل اور خودکشی کے واقعات کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں۔ یوں تو ملک میں طلاق کا قانون موجود ہے تاہم سماجی شرمندگی کی وجہ سے بالعموم خواتین طلاق لینے سے گریز کرتی ہیں اور وہ اذیت کی زندگی سے نکلنے کے بارے میں سوچ نہیں پاتیں۔
Published: undefined
مینا بہنوں کے میکے والوں کو حالانکہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا علم تھا لیکن انہیں سسرال چھوڑنے کا کوئی متبادل دکھائی نہیں دیا۔ ان کے والد سردار مینا کا کہنا تھا،"ہم نے سوچا کہ ان کی شادی ہوگئی تو انہیں اپنے خاندان کی عزت برقرار رکھنے کے لیے اپنے سسرال میں ہی رہنا چاہئے۔ اگر ہم ان کی شادی کسی دوسری جگہ کراتے اور وہاں بھی حالات خراب ہوجاتے تب ہم کیا کرتے۔ ہماری تو ناک کٹ جاتی۔"
Published: undefined
بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق سن 2020 میں جہیز کے لیے تقریباً سات ہزار عورتوں کو مار ڈالا گیا، گویا ہر روز 19عورتوں کا قتل کیا گیا۔ بیورو کے مطابق اس دوران جہیز سے متعلق معاملات کی وجہ سے 1700 سے زائد عورتوں نے خود کشی کرلی۔
Published: undefined
یہ دونوں اعداد و شمار پولیس کی طرف سے فراہم کردہ رپورٹوں کی بنیاد پر ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بیشتر خاندان سماجی بدنامی اور دیگر اسباب کی بنا پر ایسی اموات کی رپورٹ درج نہیں کراتے ہیں۔
Published: undefined
پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نامی غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ کویتا سریواستو کہتی ہیں "ہر گھنٹے میں 30 سے 40 عورتیں اپنے سسرال میں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور یہ تو صرف درج کرائے گئے کیسز کی تعداد ہے۔ اصل کیسز تو اس سے بہت زیادہ ہوں گے۔"
Published: undefined
کویتا سریواستو کہتی ہیں کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں گھریلو تشدد کو بڑے پیمانے پر سماجی قبولیت حاصل ہے جس کی وجہ سے خواتین خود کو اذیت ناک اور پرتشدد رشتوں میں پھنسا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ مینا بہنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔
Published: undefined
کویتا کا کہنا تھا، "اگر ایک عورت کو بھی ایسا محسوس ہونے پرکہ اس کی شادی شدہ زندگی تباہ ہوگئی ہے، خودکشی کرنا پڑے تو مجھے لگتا ہے کہ بھارت ایک ملک کے طور پر خواتین کے لیے ناکام ہوچکا ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز