سماج

بھارت کے تين مسلم تعليمی ادارے، دنيا بھر ميں اپنی مثال آپ

بھارت ميں تين مسلم تعليمی ادارے اپنی مثال آپ ہيں۔ یہ مقامات نئی دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد اور دارالحکومت سے قريب دو سو کلومیٹر دور جنوب میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہيں۔

بھارت کے تين مسلم تعليمی ادارے، دنيا بھر ميں اپنی مثال آپ
بھارت کے تين مسلم تعليمی ادارے، دنيا بھر ميں اپنی مثال آپ 

ان موقر اور تاریخی اداروں کے اندر داخل ہوتے ہی نہ صرف عظمت رفتہ کی پرشکوہ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں بلکہ یہ ادارے جہاں موجودہ دور کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں وہیں یہ اپنے ہم عصر اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ہر شعبے میں سبقت لے جانے کی دھن میں بھی مصروف ہیں۔ لیبارٹری ہو یا لائبریری، اساتذہ ہوں یا طلبا، سب کو دیکھ کر مسلمانوں کے حال اور مستقبل کے حوالے سے مایوسی کے بادل چھٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہ فرحت بخش احساس جا گزیں ہونے لگتا ہے کہ یہ ادارے مسلمانوں نے سائنس و تحقیق کے میدان میں ماضی میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، جیسے وہ اس کے احیاء کی کوشش کر رہے ہوں۔ آج ان جامعات کی سائنسی تحقیقات اور ایجادات کو نہ صرف بھارت میں بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی پذیرائی مل رہی ہے۔

Published: undefined

آٹھویں سے چودہویں صدی کو اسلامی تاریخ کا سنہری دور قرار دیا جاتا ہے۔ اس وقت یورپ ایک تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ تاہم اس عرصے میں مسلم دنیا نے ثقافت، فنون لطیفہ، فلکیات، طب اور سائنس کے میدانوں میں نت نئی ایجادات اور تحقیقات کیں اور کئی سائنسی علوم کی بنیاد رکھیں۔ لیکن یہ سلسلہ پندرہویں صدی سے زوال آمادہ ہونا شروع گیا اور مسلم دنیا میں تحقیق اور اختراع کے میدانوں پر ایک جمود سا چھا گیا۔ وہ یورپ جس کی نشاہ ثانیہ کی بنیاد قرون وسطی کے ان مسلم سائنسدانوں کے کارناموں کی مرہون منت ہے، مسلم دنیا اس کی محتاج سی بن کر رہ گئی۔

Published: undefined

حال ہی میں جب امریکا کی اسٹينفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک جماعت نے پروفیسرعمران علی کو اينا لیٹیکل کیمسٹری میں بھارت کا نمبر ون اور دنیا کا چوبيسويں نمبر کا سائنس دان منتخب کیا تو مسلمانوں کی قائم کردہ ان تینوں جامعات میں سائنس کے میدان میں جاری تحقیقی کاوشوں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول ہونا شرو ع ہوئی۔ پچھلے چند سال سے ان اداروں سے بڑی بڑی تحقیقی کاوشیں منظر عام پر آر ہی ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکا کی متعدد جامعات ان سے علمی و تحقیقی منصوبوں میں اشتراک و تعاون کر رہی ہیں اور وہاں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالروں کو اپنے یہاں مدعو کر رہی ہیں۔

Published: undefined

سر سید احمد خان کی قائم کردہ علی گڑھ یونیورسٹی کو بھارت کے اعلی تعلیمی اداروں میں ایک منفرد مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ یہ بھارت کی سر فہرست بيس ریسرچ یونيورسٹیوں کی درجہ بندی میں آٹھویں مقام پر ہے۔

Published: undefined

کچھ دن پہلے اے ایم یو کے سابق نائب وائس چانسلر پروفیسر حنیف بیگ کو میڈیسین (طب) کے میدان میں بھارت کے Outstanding Scientist Award سے نوازا گیا۔ وہ امراض قلب کے نامور سرجن ہیں اور انڈو اسکوپی کے ذریعے عمل تنفس کے اعضاء سے خارجی عوامل نکالنے کے موجد ہیں۔ انہوں نے سینے سے فاسد مادوں کی نکاسی کے طریقے کی متعدد نئی تکنیکيں ایجاد کیں، جن سے روزانہ کئی زندگیا ں بچ جاتی ہیں۔ ان کے 161 مقالے ملک و بیرون ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔

Published: undefined

اے ایم یو کے ایک دوسرے سائنسداں ڈاکٹر حفظ الرحمن صدیق ہیں۔ جنہوں نے شراب نوشی سے ہونے والے جگر کے کینسر کے کلیدی روٹ کو دریافت کیا۔ انہوں نے سدرن کیلی فورنیا یوینورسٹی کے پروفیسر کیگو مشیدا کے ساتھ مل کر اس جان لیوا بیماری کا علاج دریافت کیا۔ یہ تحقیق حال میں موقر جریدے نیچر کمیو نیکشنز میں اشاعت پذیر ہوئی۔ ڈاکٹر صدیق کہتے ہیں کہ جگر کے کینسر کے سالانہ پانچ لاکھ سے زیادہ کیس تشخیص کیے جاتے ہیں اور ان میں پانچ سال زندہ رہنے کی شرح دس تا بیس فیصد ہے۔ اس کے اسی فیصد سے زیادہ مریض ترقی پذیر یا پسماندہ ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔

Published: undefined

یونیورسٹی کے تین ذہین اور با صلاحیت اسکالروں کو نیو ٹرینو فزکس گروپ کی طرف سے انٹر نیشنل فیلوشپ عطا کی گئی ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کے چار سائنسدانوں کو سن 2015 میں ہیماٹو لوجی (خون سے متعلق مطالعہ) کے میدان میں با وقار ولیم ہاروے ایوارڈ دیا گیا۔ پروفیسر رشید عمر کو گراؤنڈ واٹر سائنس (زیر زمین پانی) کے میدان میں بھارت کے نیشنل ایوارڈ فار ایکسيلینس سے نوازا گیا۔

Published: undefined

اسی طرح ڈاکٹر سید رفعت اللہ کو طب یونانی میں بھارتی حکومت کے سب سے معتبر ایوارڈ 'لائف اچویمنٹ ایوارڈ برائے بیسٹ ریسرچر‘ دیا گیا۔ ڈاکٹر رفعت نے سعودی عرب کی ڈھائی سو جڑی بوٹیوں کے مضر و مفید اثرات کا مطالعہ کیا، جو سعودی عرب کی 395 دیسی ادویات میں استعمال ہوتی ہیں۔

Published: undefined

خواتین بھی اس معاملے میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر بشریٰ عتیق کو طبی علوم یا میڈیکل سائنس میں نمایاں کارنامہ انجام دینے کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت کے سب سے بڑے انعام 'شانتی سروپ بھٹناگر پرائز برائے 2020 سے سرفراز کیا گیا۔ جبکہ ڈاکٹر ثمن حبیب کو ملریا پیراسائٹ (طفیلی) پر ریسرچ کے لیے انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی فیلو کا اعزاز عطا کیا گیا۔ وہ سينٹرل ڈرگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی چیف سائنٹسٹ ہیں۔

Published: undefined

اے ایم یو کے رابط عامہ افسر عمر پیرزادہ کہتے ہیں کہ یہ کارنامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ادارے کی اعلی پایہ کی تحقیقی سر گرمیوں اور سائنسی ایجادات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسے پذیرائی مل رہی ہے۔ حال ہی میں بھارت کے سب سے بڑے سرکاری طبی ادارے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے کووڈ انيس کے ویکسن کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل یا تجربات کا ذمہ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کو تفویض کیا۔

Published: undefined

آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے ايک سو سال مکمل کر چکی ہے۔ جب سن 1857میں دہلی سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا، تو اس کے بعد بر صغیر کے مسلمانوں پر ایک آفت ٹوٹ پڑی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے اور انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے مقاصد کے تحت سر سید نے سن 1877 ميں محمڈن اینگلو کالج قائم کیا۔ یہ کالج آکسفورڈ اور کیمبریج یونیورسٹی کے طرز تعلیم پر قائم کیا گیا لیکن اس میں اسلامی اقدار پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ اور یہ سن 1920میں ترقی کرتے کرتے یونیورسٹی بن گیا۔

Published: undefined

نئی دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی ایک دوسرا تاریخی ادارہ ہے جو تحریک آزادی کے ممتاز قائدین مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ نے سن 1920میں دہلی میں قائم کیا۔ یہ بھی اپنے قیام کے سو سال پورے کر چکا ہے۔ تعلیمی اداروں کا معیار جانچنے کے سرکاری ادارے NAAC نے جامعہ کو گریڈ اے کا درجہ دیا ہے۔

Published: undefined

جامعہ کے پروفیسر عمران علی کو بھارت کے چوٹی کا سائنسداں منتخب کرنے کے علاوہ انہیں حال ہی میں Highly Cited Researchers (HCR) 2020 کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ پروفیسر علی کے علاوہ جامعہ ایک دوسرے پروفیسر فیضان احمد کو بائیو فزکس کے میدان میں بھارت کا چوتھا اہم ترين سائن سدان قرار دیا گیا۔ اسی طرح دنیا بھر کے 60 لاکھ سے زائد سائنسدانوں میں سے منتخب کيے گئے دو فیصد سائنسدانوں کی فہرست میں جامعہ کے دیگر دس سائنسدان بھی شامل ہیں۔ عالمی طور پر مسلمہ اشاریہ SCOPUS کے مطابق جامعہ کے گزشتہ سال 911 مقالے بین الاقومی جرائد میں شائع ہوئے۔ ان میں لائف سائنسز میں 13.3فيصد، کیمسٹری میں 14.5فيصد، فزکس و مٹریل سائنسیز میں 22.6 فيصد، انجینئرنگ و ٹیکنالوجی میں 17.8فيصد اور کمپیوٹر سائنس میں 8 فيصد ہیں۔

Published: undefined

جامعہ کے رابط افسر احمد عظیم نے بتایا کہ ادارے نے اپنے قیام کی تقریبات منانے کے سلسلے میں علمی اور تحقیقی میدان میں اعلی سے اعلی معیار حاصل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کیا ہے۔

Published: undefined

آزادی کے بعد قائم ہونے والے تعلیمی ادارے جامعہ ہمدرد نے بھی ایک مختصر مدت میں تحقیقی میدان میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ یہ ادارہ سن 1989میں حکیم عبد الحمید نے ذاتی صرفہ سے قائم کیا۔ حکیم صاحب خود بھی سائنسی میدان میں تحقیق پر بہت زور دیتے تھے۔ انہوں نے سابق اور برسر خدمت سائنسدانوں کو اپنے کیمپس میں آنے کی دعوت دی اور انہیں تمام سہولیات اور آزادی فراہم کی۔ ادارے کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس کے بیشتر وائس چانسلرز اعلی سائنسدان رہے ہیں اور موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر سید ای حسنین بھی ایک عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ہیں۔

Published: undefined

جامعہ کے ڈاکٹر معراج احمد انصاری کو ویلکم ٹرسٹ ڈی بی ٹی ميں فیلوشپ ملی۔ یہ فیلو شپ بائیو میڈیکل سائنس میں نوجوان سائنسدانوں کو دی جاتی ہے۔ اس جامعہ کے بھی پانچ سائنسدانوں کو اعلی درجے کے دو فیصد سائنسدانوں کی فہرست میں شامل کیا گيا۔ ان میں پروفیسر ایس رئیس الدین اور پروفیسر رنجیت بسواس شامل ہیں۔

Published: undefined

پروفیسر رئیس الدین کہتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مقابلے میں جامعہ ہمدرد ایک نوخیز ادارہ ہے لیکن اس کی تحقیقی کاوشیں قابل رشک ہیں۔ وہ بھارت کی 900 سے زائد جامعات میں چوٹی کی 25 یونیورسٹیوں میں شامل ہے۔ وہ فارمیسی کے میدان میں گزشتہ دو سال سے ملک کی سر فہرست یونیورسٹی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جامعہ ریسرچ کے عالمی میدان میں اپنا نقش قائم کرنے کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined