افریقی براعظم کے کنیری جزائر پر حاکمیت اسپین کی ہے۔ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے یہ جزائر پرکشش سیاحتی منزل ہیں لیکن افریقی براعظم کے لوگ ان جزائر سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔
Published: undefined
اپنے اپنے ملکوں سے نکلنے کے بعد اب ان کی اولین منزل کنیری جزائر ہیں۔ کنیری جزائر تک پہنچنے کے لیے بھی بحر اوقیانوس کے سمندری راستے کے ذریعے کمزور کشتیوں سے سفر کیا جاتا ہے۔ اس کو ایک انتہائی خطرناک سفر قرار دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
براعظم افریقہ کے وہ افراد، جو یورپ کا سفر اختیار کرتے ہیں، ان کا ایک راستہ نائجر، مالی اور الجزائر سے مراکش ہے اور پھر اس ملک سے بحیرہ روم کو عبور کر کے یورپ کی جانب سفر شروع کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
اس مناسبت سے دوسرا روٹ بحیرہ روم کا ہے۔ اس کے ذریعے پہلے لیبیا پہنچا جاتا ہے اور پھر وہاں سے مالٹا اگلی منزل ہوتی ہے۔ مالٹا سے افریقی مہاجرین ناقص کشتیوں پر سوار ہو کر اطالوی جزائر جیسا کہ لامپے ڈوسا یا سسلی کی جانب بڑھتے ہیں۔
Published: undefined
اب تیسرا راستہ انسانی اسمگلروں نے کنیری جزائر کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ روٹ زیادہ تر مغربی افریقی ممالک کے مہاجرین استعمال کرتے ہیں۔
Published: undefined
ان مختلف روٹس کے ذریعے انسانی اسمگلر افریقی مہاجرین کو یورپ پہنچانے کی مہم جوئی کرتے ہیں اور اس دوران کشتیاں الٹنے کے بےشمار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ہسپانوی امدادی تنظیم کامینانڈو فرونٹیراس کے مطابق سن 2021 میں کنیری جزائر سے یورپ کے سفر پر چار ہزار مہاجرین سمندری لہروں کی نذر ہوئے۔
Published: undefined
انٹرنیشنل تنظیم برائے مہاجرین بھی ان روٹس کو افریقی مہاجرین کے لیے خطرناک اور جان لیوا قرار دیتی ہے۔ اس نے بھی ان سمندری راستوں پر سینکڑوں مہاجرین کے ہلاک ہونے کو رپورٹ کیا ہے۔
Published: undefined
ہسپانوی امدادی تنظیم شمال مغربی افریقی ممالک کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بحر اوقیانوس کا روٹ اس وقت انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال زیادہ ہے اور اس پر انسانی ٹریفکنگ کرنے والے اسمگلر غیر معمولی فعال ہیں۔
Published: undefined
کامینانڈو فرونٹیراس نامی تنظیم کے مطابق سن 2021 میں تہتر کشتیاں بحر اوقیانوس کی شدید موجوں کو برداشت نہیں کر سکی تھیں اور ان کے الٹنے کے حادثات میں گیارہ سو سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ جو لاپتہ ہوئے ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا۔
Published: undefined
کنیری جزائر سے یورپ کا سفر اختیار کرنے والے ایک افریقی مہاجر ماڈالا تونکارا کا کہنا ہے کہ اس خطرناک سمندری سفر میں ان افراد کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا، جن کے ڈوبنے کی خبر عام نہیں ہوتی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے خطرناک سفر میں بے شمار افریقی مہاجرین کی موت بھوک سے بھی ہو جاتی ہے اور کئی پیاسے مر جاتے ہیں۔
Published: undefined
تونکارا کا کہنا ہے کہ مرنے کے امکان اور تمام خطرات کو جانتے ہوئے بھی افریقی ملکوں کے افراد یورپ پہنچنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور انہیں کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔
Published: undefined
انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین کے مطابق سن 2020 کے مقابلے میں مہاجرین کی آمد میں معمولی سی کمی ضرور ہوئی ہے۔ ہسپانوی وزارتِ داخلہ کے مطابق سن 2021 میں بائیس ہزار تین سو افریقی مہاجرین غیرقانونی طور پر ان کے ملک پہنچے تھے۔
Published: undefined
افریقی مہاجر ماڈالا تونکارا کا کہنا ہے کہ اس جیسے افراد کا افریقی ملکوں میں کوئی مستقبل نہیں اور جو بھی شخص وہیں رہنے کو ترجیح دیتا ہے، تو اس سے مراد ایک غیر یقینی مستقبل کے ساتھ سمجھوتا کرنا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined