جہانگیر پوری میں انہدامی کارروائی کے بعد بھارتی دارالحکومت دہلی میں 'غیر قانونی کالونیوں‘ کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ سپریم کورٹ نے کل جمعرات اکیس اپریل کے روز اس بات پر سخت ناراضگی ظاہر کی کہ عدالت کی واضح ہدایات کے باوجود جہانگیر پوری میں مکانات اور دکانوں کا انہدام روکا کیوں نہیں گیا تھا۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا، ''ہم اس بارے میں سنجیدگی سے کارروائی کریں گے۔‘‘
Published: undefined
متاثرین کے مطابق انہدامی کارروائی سے قبل نہ تو انہیں کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ ہی وہاں سے اپنا سامان نکالنے کا کوئی موقع مہیا کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ شہر کی میونسپل کارپوریشن نے یہ کارروائی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اشارے پر اور اس کے رہنماؤں کو 'خوش کرنے کے لیے‘ کی۔ گزشتہ اتوار کے روز ہنومان جینتی کے موقع پر جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
Published: undefined
ان سب کے درمیان بھارت کے قومی دارالحکومت دہلی میں غیر قانونی کالونیوں (unauthorised colonies) کا مسئلہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔
Published: undefined
ایک اندازے کے مطابق دہلی کی شہری آبادی کا 30 فیصد سے زائد حصہ غیر قانونی رہائشی بستیوںں میں رہتا ہے۔ یہ غیر قانونی کالونیاں غیر منصوبہ بند انداز میں بسائی جانے والی ایسی آبادیاں ہیں، جو نہ تو ترقیاتی ماسٹر پلان میں شامل ہوتی ہیں اور نہ ہی رہائشی زمینوں کے دائرے میں آتی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ دیہی یا زرعی زمینیں تھیں جو پلاٹوں میں تقسیم کر کے فروخت کردی گئیں اور ان پر مکانات کی تعمیرکے دوران ضابطوں اور قوانین کا زیادہ تر خیال نہ رکھا گیا۔ سرکاری طور پر ایسی زمینوں پر رہائشی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی تاہم ایسے مکانات کی تعمیر کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
Published: undefined
شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم 'کور اربن‘ کی شریک بانی اور ڈائریکٹر ریتو کٹاریا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''دہلی میں غیر قانونی رہائشی کالونیوں کا سلسلہ ملک کی آزادی کے بعد ہی شرو ع ہو گیا تھا۔ مہاجرین کی آمد،مکانات کی بڑھتی ہوئی مانگ، زمین کی اونچی قیمتیں اور مناسب رہائشی سہولیات کے فقدان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی زمینوں کے مالکان نے اپنی زمینیں 'پاور آف اٹارنی‘ کے ذریعے فروخت کرنا شروع کر دی تھیں۔ ان زمینوں پر لوگوں نے کسی بھی تعمیراتی منصوبے یا نقشے کے بغیر اپنی اپنی خواہش کے مطابق مکانات کی تعمیر شرو ع کردی، جن میں نہ تو صفائی ستھرائی کا کوئی نظم تھا اور نہ ہی سڑکوں یا دیگر بنیادی سہولتو ں کا کوئی خیال رکھا گیا تھا۔‘‘
Published: undefined
ریتو کٹاریا نے کہا، ''گوکہ ان کالونیوں کی حالت کچی بستیوں سے قدرے بہتر ہے لیکن ان کی قانونی حیثیت بالخصوص مالیاتی اور رہن سہن کے معاملات پر بہرحال کئی سوالیہ نشان لگے ہیں۔‘‘ خیا ل رہے کہ بھارتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ایسی غیر قانونی کالونیوں میں مکانات کی تعمیر یا ان کی خریداری کے لیے قرض دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
Published: undefined
بھارت کی وزارت برائے شہری ترقی کی سن 2019ء میں جاری کردہ فہرست کے مطابق دہلی میں 1797 کالونیاں غیر قانونی ہیں۔ ان میں سینک فارم، فریڈم فائٹرز انکلیو، وسنت کنج انکلیو، سیدالعجائب ایکسٹینشن اور چھترپور جیسی 69 ایسی کالونیاں بھی شامل ہیں، جہاں زیادہ تر اشرافیہ رہتی ہے۔
Published: undefined
ماہرین کے مطابق دہلی کا کوئی بھی قانون متاثرہ فریقین کو پیشگی اطلاع کے بغیر کسی سرکاری ایجنسی کو مکانات یا تعمیراتی ڈھانچے کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ نے بھی سن 2017ء میں اپنے ایک فیصلے میں اس کی توثیق کی تھی۔ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کی روشنی میں سنایا گیا تھا۔
Published: undefined
ضابطوں کے مطابق سرکاری حکام کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ انہدام کیوں ناگزیر ہے۔ نیز یہ دھیان بھی رکھا جائے کہ اس کے نتیجے میں متاثرین بے گھر نہ ہونے پائیں یا رہائش کے ان کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے۔
Published: undefined
دہلی میں غیر قانونی کالونیوں کا معاملہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر اسمبلی انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں ایسی کالونیوں کو 'ریگولرائز‘ کرنے کے وعدے ضرور کرتی ہیں اور ان پر عمل نہ کرنے کے لیے دوسرے کو موردا لزام ٹھہراتی رہتی ہیں۔ دہلی میں آخری مرتبہ سن 1977 میں 567 کالونیوں کو 'ریگولرائز‘ کیا گیا تھا۔
Published: undefined
ریتو کٹاریا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مختلف اسباب کی بنا پر غیر قانونی کالونیوں کا انہدام کوئی مناسب متبادل نہیں ہے، کیونکہ یوں ایک طرف اگر وسیع تر اقتصادی نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ عمل بنیادی انسانی حقوق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز