ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں پر گھریلو تشدد زیادہ تر ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں خواتین کو سماجی طور پر بہت زیادہ مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ان معاشروں میں جو پدر شاہی معاشرے نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پدر شاہی سماجی ڈھانچوں میں تو اکثر خواتین ایسا کرنے کا سوچتی بھی نہیں۔ جن ممالک میں مردوں کو صنف مخالف کے ہاتھوں اس طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں کئی مغربی ممالک بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک مثال جرمنی کی بھی ہے۔
Published: undefined
جرمنی کی کل سولہ میں سے دو وفاقی ریاستوں میں اب حکومتی سطح پر تاریخ میں پہلی بار ایسی باقاعدہ سرکاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کا مقصد مردوں کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس بارے میں وفاقی جرمن صوبوں باویریا اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں حکام نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اب اس موضوع کو سماجی طور پر شجر ممنوعہ رکھنے کی سوچ تبدیل ہونا چاہیے اور اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جانا چاہیے۔
Published: undefined
Published: undefined
ان دونوں جرمن صوبوں میں، جن میں سے ایک جرمنی کا جنوبی صوبہ باویریا ہے اور دوسرا ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو)، اب پہلی بار یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ علاقائی حکومتیں نہ صرف مردوں پر گھریلو تشدد کے خلاف ٹیلی فون ہاٹ لائنیں قائم کریں گی بلکہ اسی سلسلے میں صوبائی سطح پر متاثرین کی مدد کے لیے آن لائن مشاورتی پلیٹ فارم بھی قائم کیے جائیں گے۔
Published: undefined
یہی نہیں بلکہ آئندہ ان صوبوں میں ایسے 'محفوظ گھر‘ بھی قائم کیے جائیں گے، جہاں گھریلو زندگی میں تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کو رہائش اختیار کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ اس بارے میں ان دونوں جرمن صوبوں کے علاقائی حکومتی اہلکاروں کی طرف سے بتایا گیا کہ اب بالآخر 'اس تشدد کو نظر آنا چاہیے اور اس پر پردہ پوشی کے لیے کھڑی کی گئی دیواریں گرائی جانا چاہییں‘۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمنی سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سرکاری سطح پر یہ کوششیں اب ماضی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو چکی ہیں کہ صرف مردوں کی طرف سے تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کو ہی نہیں بلکہ ان مردوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، جو ازدواجی زندگی میں اپنی ساتھی خواتین کی طرف سے مار پیٹ اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
Published: undefined
مردوں کے تحفظ کی ان صوبائی مہموں کو متعارف کراتے ہوئے باویریا اور این آر ڈبلیو کی حکومتوں کے نمائندوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اس امر کا خیر مقدم کریں گے کہ اسی طرح کی حکومتی پیش رفت کا مظاہرہ جرمنی کے باقی ماندہ چودہ وفاقی صوبے بھی کریں۔
Published: undefined
این آر ڈبلیو کی صوبائی حکومت کی ایک نمائندہ اہلکار اینا شارین باخ نے کہا، ''ڈسلڈورف میں صوبائی حکومت مردوں اور لڑکوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے ایک ایسا ایکشن پلان تیار کر رہی ہے، جسے باقاعدہ قانون سازی کے لیے منظوری کی خاطر 2021ء میں صوبائی پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
جرمنی میں جرائم کی روک تھام کے وفاقی دفتر کے مطابق یہ ادارہ ہر سال گھریلو تشدد سے متعلقہ جرائم کے بارے میں باقاعدہ اعداد و شمار جمع کرتا ہے۔ اس دفتر کی 2018ء میں 2017ء کے لیے جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں گزشتہ برس گھریلو تشدد کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے، ان میں سے 18 فیصد متاثرین مرد تھے۔
Published: undefined
بی کے اے نامی اس وفاقی دفتر کے مطابق 2017ء میں جن جرمن شہریوں نے اپنے یا اپنی شریک حیات کی طرف سے گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، اقدام قتل اور شخصی آزادی کو محدود کر دینے جیسے جرائم کی پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی، ان میں سے تقریباﹰ 24 ہزار متاثرین مرد تھے۔ ساتھ ہی بی کے اے نے یہ بھی کہا کہ جرمنی میں ایسے جرائم سے متاثرہ مردوں کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے مرد سماجی طور پر شرمندگی کی خوف کی وجہ سے پولیس کو ایسے جرائم کی اطلاع ہی نہیں دیتے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined