کٹھمنڈو سے سرگرم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹیڈ ماونٹین ڈیولپمنٹ نے منگل کے روز جاری اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ آنے والے برسوں میں برفانی تودوں کے ٹوٹنے اور سیلاب آنے کے واقعات زیادہ تیزی سے رونما ہوں گے۔ اور اس سے پہاڑوں سے نکلنے والی 12ندیوں کے کنارے آباد دو ارب سے زائد افراد کے لیے تازہ پانی کی دستیابی متاثر ہو گی۔
Published: undefined
ہندوکش ہمالیائی سلسلے کی برف ان ندیوں کے کنارے آباد لوگوں کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ ندیاں ایشیا کے 16ملکوں سے ہو کر گزرتی ہیں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے 240 ملین کے علاوہ میدانی علاقوں میں رہنے والے تقریباً 1.65 ارب افراد کو تازہ پانی فراہم کرتی ہیں۔
Published: undefined
رپورٹ مرتب کرنے والوں میں سے ایک اور مہاجرت کے امور کی ماہر امینہ مہارجن کا کہنا تھا، "ان پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کا گلوبل وارمنگ بڑھانے میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ بہت زیادہ خطرے میں ہیں۔"
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ "ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کی موجودہ کوششیں مکمل طورپر ناکافی ہیں اور ہمیں انتہائی تشویش ہے کہ اگر ہم نے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ تعاون نہ کیا تو یہ کمیونٹیز اس کے مضمرات سے نمٹنے کے قابل نہیں رہیں گی۔"
Published: undefined
مختلف سابقہ رپورٹوں سے بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ، زمین اور برف سے ڈھکے ہوئے علاقے، یعنی کرائیو اسفیئر، ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ حالیہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ماونٹ ایورسٹ کے گلیشیئر پچھلے صرف 30سالوں میں 2000 سال کی برف کھو چکے ہیں۔ امینہ مہارجن کا کہنا تھا، "ہم نے پہلی مرتبہ اس پہاڑی خطے میں کرائیواسفیئر کی تبدیلی سے پانی اور ایکو سسٹم نیز سماج پر پڑنے والے اثرات کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔"
Published: undefined
منگل کے روز جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2010 کے بعد سے ہمالیائی گلیشیئر اس سے سابقہ دہائیوں کے نسبت 65 فیصد زیادہ تیزی سے غائب ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں میدانی علاقوں میں رہنے والوں کو تازہ پانی کی دستیابی کم ہوتی جارہی ہے۔ تحقیقات میں پتہ چلا کہ ان پہاڑی علاقوں کے موجود 200 گلیشیئر جھیلیں خطرات سے دوچار ہیں اور اس صدی کے اواخر تک ان جھیلوں میں سیلاب آنے کا سلسلہ تیز ہوجائے گا۔
Published: undefined
مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے ماحولیاتی تبدیلی سے کہیں زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندو کش ہمالیائی خطے میں گلوبل وارمنگ کے اثرات "غیر معمولی اور ناقابل واپسی ہیں۔" ہندو کش ہمالیہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان میں 3,500 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
Published: undefined
ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلشیئرز کے پگھلنے کے اثرات محسوس بھی ہونے لگے ہیں۔ اس سال کے اوائل میں بھارت کا پہاڑی قصبہ جوشی مٹھ دھنسنے لگا تھا اور وہاں کے مکینوں کو جلدی میں دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا تھا۔ جوشی مٹھ ہندوؤں کا ایک اہم مذہبی مقام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان علاقوں میں ایک بار برف پگھلنا شروع ہوگیا تو اسے روکنا بہت مشکل ہو گا۔
Published: undefined
امینہ مہارجن کہتی ہیں،" یہ کسی سمندر میں ایک بڑے جہاز کی طرح ہے۔ ایک بار جب برف پگھلنا شروع ہوتا ہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ گلیشیئز اور بالخصوص ہمالیہ کے بڑے گلیشیئرز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک بار وہ بڑے پیمانے پر پگھلنا شروع ہوں گے تو ایک طویل مدت تک اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ وہ کہتی ہیں "بیشتر پالسی ساز اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined