لکھاری، اسپیکر اور دفاتر میں بہتر حالات سے جڑے امور کی ماہر جینیفر موس کے مطابق اس سلسلے میں اداروں کو 'کام کام اور کام‘ کے بن جانے والے کلچر پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اسی موضوع پر موس نے کتاب ''دی برن آؤٹ ایپی ڈیمِک: دی رائز آف کرونک اسٹریس اینڈ ہاؤ وی کین فِکس اِٹ‘ یعنی ''تھکا دینے والے کام کی وبا، ایک مستقل ذہنی دباؤ اور اس کا علاج‘‘ نامی کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے تفصیل سے بتایا ہے کہ اس بحران کا حل کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
اس موضوع پر موس نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے تفصیلی بات چیت کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران صرف دو فیصد افراد نے اپنی صحت کو بہترین قرار دیا جب کہ 89 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کی کام کی زندگی بری ہو گئی ہے۔ ''ہمیں لگتا ہے کہ لوگ دن میں زیادہ دیر تک کام کریں گے اور ذہنی طور پر تھک جائیں گے اور یوں ان کی کارکردگی بھی متاثر ہو گی۔‘‘
Published: undefined
موس نے یہ بھی کہا کہ کرونک ورک پلیس اسٹریس رفتہ رفتہ قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے، جس کی متعدد وجوہ ہیں۔ ''ایک تو کام کا ناقابل برداشت دباؤ ہے، لوگوں کو کام کے بدلے کچھ مل بھی نہیں رہا، معاونت کرنے والی کمیونٹی بھی نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ متعدد کمپنیاں کئی اقدامات کے ذریعے ذہنی دباؤ کے شکار اپنے ملازمین کی مدد کی کوشش کر رہی ہیں، ''قائدانہ پوزیشینوں پر موجود لوگ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ کام چھوڑ رہے ہیں۔ وہ اسی لیے مختلف طریقے اپنا رہے ہیں، جن کے ذریعے ملازمین کو زیادہ بااختیار بنایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بعض کمپنیاں دفاتر کے بجائے ہوم آفس ہی کو فوقیت دے رہی ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ بڑا ہے اور اس کے حل کے لیے اقدامات بھی واضح اور بڑے ہونا چاہییں۔‘‘
Published: undefined
اس مسئلے کے حل کے حوالے سے موس کا کہنا تھا، ''ورک لوڈ کی جڑ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو ایک دن کی چھٹی دینا ٹھیک ہے مگر ہمیں کارکردگی سے جڑی توقعات کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر آپ کے ہاں زیادہ کام کا کلچر ہے، تو سمجھ لیں کہ زیادہ کام لوگوں کو کارگر نہیں بناتا۔ زیادہ کام انہیں بیمار بناتا ہے۔ کارکنوں کی تنخواہیں ان کے کام کے اعتبار سے اچھی کرنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں، تو ان کو اس کا معاوضہ ملنا چاہیے جب کہ ترقی بہتر کام کی بنا پر ہونا چاہیے نہ کہ کسی دوسری وجہ سے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز