سماج

منٹو کا ’گیسو تراش بزرگ‘، سوشل میڈیا اوراداکارہ مہوش حیات

’پاکستانی فلم‘ کیسے ’بھارتی فلم‘ سے مختلف ہو گی؟ سن 1948 میں منٹو نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو انہیں ایک ’زلف تراش‘ بزرگ دکھائی دیے۔ اب پاکستانی سوشل میڈیا پر ’زلف تراش‘ نوجوان ہیں۔

منٹو کا گیسو تراش بزرگ، سوشل میڈیا اور مہوش حیات
منٹو کا گیسو تراش بزرگ، سوشل میڈیا اور مہوش حیات 

اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو قیام پاکستان کے ایک برس بعد یعنی سن 1948 میں ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے تھے۔ تقسیم سے قبل انہوں نے افسانے کے ساتھ ساتھ فلم بھی لکھنا شروع کر دی تھیں، جن کے باعث ان کے معاشی حالات کچھ بہتر ہو چکے تھے۔

Published: undefined

پاکستان آنے کے بعد منٹو نے ’پاکستان کے فلم‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں پاکستان میں فلم کے مستقبل کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے تھے، جو آج بھی جواب کے طالب دکھائی دیتے ہیں۔ منٹو کے مطابق تقسیم سے قبل بننے والی فلموں میں 'ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے لیے دلچسپی کا سامان‘ موجود تھا جو تجارتی نقطہ نظر سے اہم بات تھی۔

Published: undefined

تقسیم کے بعد بھارتی فلم ساز تو ویسے ہی فلمیں بنا رہے تھے، جیسے وہ تقسیم سے پہلے بنا رہے تھے لیکن پاکستان کی مختصر سی فلم انڈسٹری کے لیے سوال یہ تھا کہ ’پاکستانی فلم‘ کیسے بنائی جائے۔

Published: undefined

منٹو نے لکھا، ’'پچھلے دنوں ایک بزرگ ہاتھ میں ایک بڑی سی قینچی لیے پھرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر میں نے کسی مسلمان عورت کو بے پردہ دیکھا تو میں اس کی چٹیا کاٹ دوں گا۔ اب اگر اسی قسم کے دو تین اور گیسو تراش بزرگ پیدا ہو گئے تو فرمائیے فلموں میں کیا رہے گا۔ اداکاراؤں کو ان میں بھی برقع پہن کر کام کرنا پڑے گا۔‘‘

Published: undefined

منٹو نے اپنے مضمون میں تین پاکستانی فلموں کا تذکرہ کیا جو پاکستان بننے کے بعد بنائی جا رہی تھیں۔ ان میں سے پہلی فلم کا عنوان ’جہاد‘ تھا۔ دیگر دو کا عنوان ’تیری یاد‘ اور ’ہیر رانجھا‘ تھے۔ منٹو لکھتے ہیں، ’’جہاد جیسا کہ ظاہر ہے ایسی فلم بنے گی جو صرف پاکستان ہی میں چلے گی، اُدھر کے ڈسٹری بیوٹر تو اسے ہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔ ’تیری یاد‘ واہگہ سے اُدھر جا سکتی ہے اور ’ہیر رانجھا‘ بھی، اس لیے کہ عاشقوں پر تقسیم کا کچھ اثر نہیں ہو سکتا۔‘‘

Published: undefined

پاکستانی فلم کی ’پاکستانیت‘

Published: undefined

پاکستان بنے ہوئے ستر برس بیت چکے اور اس دوران پاکستانی فلم کی صنعت میں بھی انہی تین مذکورہ فلموں کے عنوانات کی چھاپ دکھائی دیتی رہی۔

Published: undefined

اس صنعت کو حکومتی سرپرستی نہ تو تقسیم سے قبل میسر تھی اور نہ ہی آج ہے۔ جہاد جیسی 'ٹھیٹ پاکستانی فلمیں‘ بنانے کے خواہش مندوں کو تو اب تک ’آئی ایس پی آر کا مالی تعاون‘ درکار رہتا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنے بل پر کامیاب بزنس کرنے والی فلموں پر نظر دوڑائی جائے تو پچاس کی دہائی میں ’انار کلی‘ سے لے کر اب کے دور کی ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’طیفا ان ٹربل‘ جیسے عنوانات ہی کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

Published: undefined

اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اچھی فلموں کی کامیابی کسی ’فارمولے‘ کی بدولت تھی، یا یہ کہ ان میں سماجی موضوعات زیر بحث نہیں لائے گئے۔ جیسا کہ منٹو نے بھی لکھا کہ فلم تو ’روز مرہ‘ ہی سے وابستہ ہوتی ہے اور پاکستان میں بنائی گئی فلموں میں پاکستان کے عوام کی 'روز مرہ زندگی‘ کی جھلک ہی انہیں بھارتی فلم سے جدا کرتی ہے۔

Published: undefined

گزشتہ ایک دہائی سے پاکستانی فلم سازوں کی بنائی گئی فلمیں اپنی 'پاکستانیت‘ سمیت ملک اور بیرون ملک اردو اور ہندی سمجھنے والوں میں مقبول ہوئیں تو ’عشاق‘ ہی کی بدولت۔ سرحد کے دوسری طرف بھی دیکھیے تو دنیا بھر میں بالی وڈ کی فلموں کی کامیابی بھی ’عشاق‘ ہی کے رہین منت دکھائی دیتی ہے۔

Published: undefined

مہوش حیات اور دور جدید کے گیسو تراش اور فلم کا مستقبل

Published: undefined

گزشتہ دنوں پاکستان میں فلمی اداکارہ مہوش حیات کو تمغہ امتیاز دیے جانے کے فیصلے پر پاکستانی سوشل میڈیا پر جیسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اس کے سیاسی پہلو بھی ہوں گے لیکن اکثریت کے تاثرات میں منٹو کے ’گیسو تراش بزرگ‘ کی سوچ کا پہلو ہی نمایاں دکھائی دیا۔

Published: undefined

سات دہائیوں کے مسلسل تجربات کے سبب عروج و زوال کی شکار رہنے والی پاکستانی فلمی صنعت کا مستقبل اب اگر 'سوشل میڈیا کے گیسو تراش جوانوں‘ کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو اب بھی منٹو ہی کا سوال دہرانا پڑتا ہے کہ آپ ہی 'فرمائیے فلموں میں کیا رہے گا؟‘

Published: undefined

سن 1948 میں لکھے گئے اسی مضمون میں منٹو نے موسیقی کے بارے میں بھی لکھا، ’’اگر خدانخواستہ غلط قسم کی مولویت کا دور دورہ شروع ہو گیا تو موسیقی کا فن، جس میں مسلمانوں نے زندگی پھونکی، یہاں بالکل ہی ناپید ہو جائے گا اور اگر یہ ناپید ہو گیا تو فلم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

Published: undefined

بہرحال، اب تک پاکستان میں سنگیت اور موسیقی ’زلف تراشوں‘ کی کوششوں کے باوجود جیسے تیسے اپنا سفر برقرار رکھے دکھائی دے رہی ہے۔ 'عشاق اور سنگیت‘ باقی ہیں تو امید یہی ہے کہ مہوش حیات اور فلمی صنعت سے وابستہ دیگر افراد اپنی ’زلفیں‘ بچا کر اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ساتھ ہی میں آئی ایس پی آر اگر ’جہاد‘ - یعنی ’وار‘ جیسی فلموں کی سرپرستی بھی کرتی رہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔

Published: undefined

نوٹ

Published: undefined

:

Published: undefined

ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined