بھارت میں حکومتی ادارے 'نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو' (این سی آر بی) نے جو نئی رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق سن 2019 کے مقابلے میں 2020 میں ریکارڈ سطح پر خودکشیوں سے اموات میں دس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 1967کے بعد پہلی بار خودکشی کے ذریعے اموات میں اتنا بڑا اضافہ درج کیا گيا ہے۔
Published: undefined
این سی آر بی مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والا ادارہ ہے، جو سالانہ حادثات اور خودکشی سے ہونے والی اموات کا ریکارڈ رکھنے کے ساتھ ہی اس کے اعداد و شمار بھی جاری کرتا ہے۔
Published: undefined
نئی رپورٹ جنوری 2020 سے دسمبر کے دوران ہونے والی خودکشیوں کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جہاں خودکشی سے ہونے والی اموات میں دس فیصد کا اضافہ ہوا، وہیں سڑک پر ہونے والے حادثات میں ہونے والی اموات میں تقریبا گیارہ فیصد کی کمی بھی درج کی گئی، کیونکہ ملک گیر سطح پر مہینوں کے لاک ڈاؤن سے جہاں شہروں میں ٹریفک برائے نام تھا، وہیں نقل و حمل کے دیگر ذرائع بھی تقریبا بند پڑے تھے۔
Published: undefined
نئی رپورٹ 28 اکتوبر جمعرات کی شام کو جاری کی گئی تھی، جس کے مطابق خودکشی کر کے اپنی جان لینے والوں میں طلبہ، مزدوروں اور بے روز گار افراد کی یومیہ تعداد میں پہلے کے مقابلے کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ کورونا جیسی عالمی وبا اور اس کے سدباب کے لیے اٹھائے گئے اقدام نے بھارتی شہریوں پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب کیے۔
Published: undefined
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس طلبہ کی خودکشی سے ہونے والی اموات میں اکیس فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ دیکھا گيا ہے، جبکہ بے روزگار ملازمین میں ساڑھے سولہ فیصد اور مزدروں میں یومیہ ساڑھے پندرہ فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ درج کیا گيا۔
Published: undefined
کسانوں اور زرعی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں میں بھی خودکشی کے زیادہ تر واقعات کا رجحان برقرار رہا ہے اور ادارے کی رپورٹ کے مطابق، 2020 میں کاشتکاری سے وابستہ دس ہزار 677 افراد نے اپنی جانیں لے لیں، جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد دس ہزار 281 تھی۔
Published: undefined
بھارت میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ 53 ہزار 52 لوگوں نے خود کشی کر کے اپنی جان لی۔ یعنی ہر روز تقریبا چار سو افراد نے خودکشی کی۔ سن 1967 کے بعد پہلی بار بھارت میں ایک برس کے دوران اتنی بڑی تعداد میں خودکشیاں ہو ئی ہیں۔
Published: undefined
حالانکہ یہ وہ تعداد ہے جسے محکمہ پولیس نے خودکشی قرار دیا ہو اور پھر حکومتی اداروں نے بھی اسے تسلیم کر کے درج کر لیا، ورنہ ایک بڑی تعداد تو بغیر رپورٹ کے ہی رہ جاتی ہے۔
Published: undefined
گزشتہ برس مردوں کی خودکشیوں کی کل تعداد میں سے سب سے زیادہ اموات روزانہ اجرت کمانے والوں مزدوروں کی تھیں اور 33 ہزار 164 مزدوروں نے خودکشی کر کے اپنی جان لے لی۔ اس کے بعد خود کا اپنا کام کرنے والے افراد کی تعداد 15 ہزار 372 ہے۔ تیسرے نمبر بے روز گار افراد کی خودکشیاں ہیں اور ایسے بارہ ہزار 893 افراد کی خود کشی سے موت ہو گئی۔
Published: undefined
خواتین کے زمرے میں سب سے زیادہ 22 ہزار 372 گھریلو خواتین کی تھیں۔ اس کے بعد پانچ ہزار 559 طالبات نے خودکشی کر لی جبکہ ساڑھے چار ہزار یومیہ اجرت کمانے والی خواتین نے بھی خودکشی کر کے اپنی جان گنوا دی۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر خودکشی کرنے والوں میں سے سات فیصد کی تعداد کسانوں اور زرعی مزدوروں کی ہے۔ سن 2020 کے دوران ملک بھر میں 5,579 کسانوں اور 5,098 زرعی مزدوروں نے خودکشی کی۔
Published: undefined
خودکشی کے لحاظ سے بھارت کے بڑے شہروں میں دارالحکومت دہلی سر فہرست ہے جہاں گزشتہ برس تین ہزار 25 افراد نے خود کشی کر کے اپنی جانیں لے لیں۔ دوسرے نمبر پر جنوبی شہر چنئی ہے جہاں تقریبا ڈھائی ہزار افراد نے خودکشیاں کیں۔ بنگلور تیسرے نمبر پر ہے جہاں تقریبا سوا دو ہزار افراد نے خودکشیاں کیں۔
Published: undefined
ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں نوجوانوں میں خود کشی کا ایک اہم سبب ذہنی امراض ہیں۔ ماہرنفسیات اور فورٹس ہیلتھ کیئر ہسپتال میں مینٹل ہیلتھ شعبہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سمیر پاریکھ کا کہنا ہے کہ بھارت میں ذہنی امراض کو نظر انداز کیا جاتا ہے، "ہمیں ذہنی امراض کو بھی ایک طبی بیماری سمجھنا ہوگا اور ہمیں اسے نظر اندازکرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔"
Published: undefined
ڈاکٹر سمیر پاریکھ کے مطابق صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کی بڑی آبادی ڈپریشن اورگھبراہٹ جیسی ذہنی بیماریوں سے دوچار ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined