ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی طرف سے جاری کردہ ترسیلات زر سروے برائے سن دو ہزار بیس اکیس کے مطابق پہلے بھارت کو سب سے زیادہ غیر ملکی ترسیلات زر متحدہ عرب امارات سے آتی تھیں لیکن اب امریکہ نے اس خلیجی ملک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سروے کے مطابق دو ہزار اکیس بائیس میں بھارت کی مجموعی ترسیلات زر کا 23 فیصد حصہ امریکہ سے آیا جبکہ متحدہ عرب امارات کا حصہ صرف 17 فیصد رہا۔
Published: undefined
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں خلیجی ملکوں سے جو ترسیلات زر آتی تھیں، ان میں سے سب سے زیادہ جنوبی ریاستوں کیرالا، تامل ناڈو اور کرناٹک میں آتی تھیں لیکن سن دو ہزار سولہ سترہ کے مقابلے سن دو ہزار بیس اکیس میں ان تینوں یونین ریاستوں کے لیے ترسیلات زر کی آمد تقریباً نصف سے بھی کم ہو گئی۔
Published: undefined
بھارت کو سب سے زیادہ ترسیلات زر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، بحرین، عمان اور قطر وغیرہ سے ملتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات، جو بھارتیوں کے لیے ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، اب دوسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔ پہلے نمبر پر اب امریکہ آ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ خلیجی خطے میں بھارتی تارکین وطن شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
بھارت کی جنوبی ریاستوں کے باشندوں کا خلیجی ملکوں میں خاصا غلبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ریاستیں ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترسیلات زر حاصل کرتی تھیں۔ اب لیکن خلیجی ملکوں میں ملازمت کے مواقع ختم یا کم ہوتے جانے سے یہی ریاستیں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
Published: undefined
کیرالا ایک عرصے تک خلیجی ملکوں سے سب سے زیادہ ترسیلات زر حاصل کرتا تھا لیکن اب اس کی پہلی پوزیشن ختم ہو گئی ہے۔ اس وقت مہاراشٹر تمام بھارتی ریاستوں میں سب سے زیادہ ترسیلات زر حاصل کرنے والی یونین اسٹیٹ بن چکا ہے۔ اس کے بعد کیرالا، دہلی، کرناٹک، آندھرا پردیش، اتر پردیش، گجرات، پنجاب اور پھر بہار کا نام آتا ہے۔
Published: undefined
سن دو ہزار سولہ سترہ میں کیرالا کو بھارت کے لیے مجموعی ترسیلات زر کا 42 فیصد سے زیادہ حصہ ملا تھا مگر سن دو ہزار بیس اکیس میں یہ حصہ صرف 25 فیصد رہ گیا جب کہ مہاراشٹر کو لگ بھگ 35 فیصد حصہ ملا۔
Published: undefined
جنوبی ریاستوں میں خلیجی ملکوں سے ترسیلات زر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اب اتر پردیش، بہار، اوڈیشہ اور مغربی بنگال سے نیم ہنر مند مزدور کہیں زیادہ تعداد میں باہر جانے لگے ہیں اور یہ خلیجی ملکوں میں جنوبی بھارتی ریاستوں کے باشندوں کے مقابلے میں کم اجرت پر کام کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
بھارتی وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2020 میں خلیج کے جی سی سی ملکوں کے لیے 50 فیصد سے زیادہ امیگریشن کلیئرنس انہیں شمالی بھارتی ریاستوں کے افراد کے لیے دی گئی تھی۔
Published: undefined
تجزیہ کارو ں کے مطابق خلیجی ممالک بھارتی ملازمین کی تعداد میں مسلسل کمی کر رہے ہیں، جس سے بھارت آنے والی ترسیلات زر واضح طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔
Published: undefined
ان تجزیہ کاروں کے مطابق خلیجی ممالک میں بھارتیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع میں کمی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک اور غالباً سب سے اہم ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی وہ داخلی پالیسیاں ہیں، جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہیں۔
Published: undefined
خیال رہے کہ سن 2020 میں کووڈ کی وبا پھیلنے کے فوراً بعد ہی مودی حکومت نے مسلمانوں کی ایک مذہبی جماعت تبلیغی جماعت اور اس سے وابستہ افراد پر ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات لگائے تھے اور بڑے پیمانے پر ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ مودی حکومت کی ان کارروائیوں کے خلاف خلیج کے کئی ملکوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
Published: undefined
خلیجی ممالک کی بہت سی نجی کمپنیوں نے ان بھارتی ملازمین کو واپس بھیج دیا تھا جو سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز باتیں پھیلانے میں سرگرم تھے۔ بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام سے متعلق انتہائی متنازعہ ریمارکس کے بعد تو بھارتی باشندوں کے لیے خلیجی عرب ممالک میں صورت حال مزید خراب ہو گئی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula
تصویر: پریس ریلیز