سماج

سعودی عرب کے صحرا میں سرسبز جدید شہر نیوم منصوبے کے تاریک پہلو

مستقبل کے بے مثال ماحول دوست سعودی شہر نیوم کی تعمیر کے لیے قبائلی افراد کی نقل مکانی ضروری ہے لیکن جو شہری اس منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہے ہیں انہیں قید یا سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سعودی عرب کے صحرا میں سرسبز جدید شہر نیوم منصوبے کے تاریک پہلو
سعودی عرب کے صحرا میں سرسبز جدید شہر نیوم منصوبے کے تاریک پہلو 

سعودی عرب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی تنقید کے باوجود نیوم کی تعمیر کو آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ مستقبل کا ایک میگا سٹی اور ماحولیاتی اعتبار سے انتہائی سازگار منصوبہ ہے۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کے ہائ کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق نیوم شہر کے لیے مختص علاقے میں پہلے سے بسنے والے الحویطات قبیلے کے لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان کے گھر انہیں مناسب معاوضے دیے بغیر ہی مسمار کیے جا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ الحویطات قبیلے کے ایک شخص کو قتل کردیا گیا، تین کو موت کی سزا اور دیگر تین افراد کو دہشت گردی کے الزام میں 50 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا، ''دہشت گردی کے الزامات کے ساتھ ساتھ انہیں جبری بے دخلی اور نیوم پراجیکٹ کے دی لائن نامی 170 کلومیٹر (106 میل) شہر کی تعمیر کے خلاف مبینہ طور پر مزاحمت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔"

Published: undefined

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (ایم بی ایس) نے وعدہ کیا تھا کہ تعمیراتی کام سے متاثر ہونے والے افراد کو منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے مرحلے میں شامل کیا جائے گا لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کی یہ تمام خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔

Published: undefined

نیوم کیا ہے؟

پانچ سو ارب ڈالر کی لاگت کے ساتھ نیوم پراجیکٹ کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے۔ یہ منصوبہ سعودی عرب کے سماجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبے 'وژن 2030ء ‘ کا حصہ ہے۔ ایم بی ایس نے یہ اصلاحات سن 2017 میں متعارف کرائی تھیں جس میں مجموعی طور پر ملک میں غیر ملکی سیاحت کے فروغ اور خواتین کے حقوق میں بہتری سمیت ملکی معیشت کو متنوع بنانا اور تیل پر انحصار کم کرنا شامل ہے۔

Published: undefined

تعمیراتی منصوبہ نیوم، جو کہ ممکنہ طور پر سن 2039 میں مکمل ہو گا، بحیرہ احمر کے ساحل کے قریب 26,500 مربع کلومیٹر سعودی علاقے پر پھیلا ہوگا۔ سعودی حکومت کا ارادہ ہے کہ یہ شہر مصنوعی ذہانت سمیت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا، اور اس میں ایک ہوائی اڈہ، تیز رفتار ٹرینیں اور ڈرون شامل ہوں گے، جو صرف قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے چلائے جائیں گے۔ یہ منصوبہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے ایک وسیع پلیٹ فارم کے طور پر بھی متعارف کرایا گیا ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق نظرانداز

اس تعمیراتی منصوبے پر نظر رکھنے والے سینئر ریسرچر سیباستیان سنز کہتے ہیں کہ نیوم منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہوگیا ہے لیکن یہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی بین الاقوامی کنسلٹنٹ نیوم میں کام کر رہے ہیں اور نیوم سے لندن یا نیویارک کی براہ راست پروازیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی عرب اس منصوبے کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہے۔

Published: undefined

اس کے برعکس انسانی حقوق کی تنظیم ریپریو کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ جیڈ باسیونی کہتے ہیں، ''نیوم کے جگمگاتے اشتہارات یہ نہیں بتاتے کہ اس شہر کی قیمت دراصل جبری بے دخلی، ریاستی تشدد، اور سزائے موت ہے۔‘‘

Published: undefined

سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رپورٹ کرنے والی تنظیم اے ایل کیو ایس ٹی، جو لندن میں واقع ہے، کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن لینا الہذلول بھی باسیونی سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کے بقول، ''ہمیں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ نیوم سعودی خون سے تعمیر کیا جارہا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ الحویطات قبیلے کے خلاف مقدمے بند دروازوں کے پیچھے چلائے گئے: ''اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے عدلیہ لوگوں کو پھانسی دینے کے لیے بھی تیار ہے۔‘‘

Published: undefined

سعودی عرب میں نیوم ایسی واحد جگہ نہیں ہے جہاں لوگوں کو زبردستی بے گھر کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2022ء تک، بندرگاہی شہر جدہ میں حکام نے شہری ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سے مکانات کو مسمار کر دیا تھا۔ اس عمل میں، ہزاروں افراد غیر قانونی جبری بے دخلی کا شکار ہوئے، جن میں غیر ملکی شہری بھی شامل ہیں۔

Published: undefined

مغرب کی ذمہ داری

سیباستیان سنز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پر اس کی انسانی حقوق کی پالیسی کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر دباؤ ڈالنے کے مواقع موجود ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ سعودی عرب نے عالمی دباؤ کے نتیجے میں سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا اور لوجین الحذلول جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کو رہا بھی کیا گیا: ''اس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب پر اس دباؤ کا اثر ہوتا ہے پھر بھلے یہ عرب ملک یہ سب اپنا امیج بہتر کرنے کے لیے ہی کرے۔‘‘

Published: undefined

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اپنے حالیہ سعودی عرب کے دورے کے دوران اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان سے ملاقات میں سعودی مملکت میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ سیباستیان سنز کے مطابق یہ جرمنی کے مفاد میں ہے کہ نیوم کی سماجی مطابقت کو بڑھایا جائے، ''کیونکہ جرمن کمپنیاں اس منصوبے میں شامل ہیں اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنا صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ جرمن کمپنیوں کی بھی ذمہ داری ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined