گزشتہ برس کیوبا کی سیاحت سے قبل اس مناسبت سے سوچا ہی نہیں تھا کہ اگر کوئی گن پوائنٹ پر ہی پوچھ لے کہ ’تم سوشلسٹ ہو‘ تو کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اس دورے سے قبل ذہن میں سوشلزم کے بارے میں خوشگوار سوچ تھی کہ میں جس ملک میں جا رہی ہوں وہاں لوگوں کے پاس بہترین ہیلتھ کیئر سہولیات میسر ہوں گی، والدین کو بچے کی ولادت پر تنخواہ کے ساتھ چھٹی بھی دی جاتی ہو گی اور ایسے ہی بہت سارے خیالات موجود تھے۔
Published: undefined
کیوبا پہنچ کر حیرت سے دیکھا کہ ایک بوڑھی خاتون راشن (روزمرہ کی خوراک) حاصل کرنے والی کتاب کے ساتھ ایک مارکیٹ میں قطار میں کھڑی ہے، ایک اور جانب پانچ لوگ ایک ساحلی عمارت پر رنگ و روغن کرنے میں مصروف تھے۔ میں نے ایک عورت، جو ماں بھی تھی، اُس کے بچے کے لیے گیلے وائپس کا ایک پیکٹ دیا تو اُس کا چہرہ تشکر آمیز جذبات سے بھر گیا۔
Published: undefined
کیوبا کے تقریباً سبھی شہروں کی کئی دیواروں پر بڑی بڑی تصاویر یا پیٹنگز پر ’سوشلزم یا موت‘ کے الفاظ درج ہیں۔ یہ پینٹگز اور الفاظ بھی ایک اور حیرت کا باعث تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ اس ملک میں سوشلزم کے ساتھ تعلق میں گرم جوشی میں کمی کے علاوہ یہ کسی غبار سے ڈھکا ہوا محسوس ہوا۔ ایسے میں ذہن میں سابقہ سوویت یونین کی ریاست بھی ابھری جہاں جبر کا نظام رائج تھا او کسی حد تک جدید دور کا چین یا وینزویلا بھی ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
اب گن پوائنٹ پر کوئی سوشلسٹ ہونے کے حوالے سے کیا جواب دے۔ اس مناسبت سے امریکی سیاستدان بیرنی سینڈرز سے پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ اس نظام میں حکومتی ملکیتی شمولیت کے بغیر پائیدار پیداوار کو سوشلزم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات جب میں نے اپنے کیوبا کے سیاحتی گائیڈ سے کہی تو وہ اپنے رَم کے گلاس کے ساتھ قہقہہ مار بیٹھا اور کہنے لگا کہ سویڈن ایک سوشلسٹ ملک نہیں ہے اور وہاں نجی کاروبار ہی سب کچھ ہے۔
Published: undefined
کیوبا میں سوشلزم کی حکومتی تعریف کے مطابق سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ہر شے کی ملکیت مشترکہ ہے۔ ایسا بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ ایسے ممالک میں ابہام پایا جاتا ہے اور سیاسی و اقتصادی نظریات عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فیمنزم (نسائیت) کی طرح سوشلزم بھی ایک بیج ہے اور آپ اسے پہن کر پھرتے ہیں لیکن یہ بھی اہم ہے کہ اس بیج کے ساتھ آپ کس مقام، جگہ یا ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔
Published: undefined
یہاں جرمنی میں یہ ترکیب کسی حد تک اور رنگ میں ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان گیرہارڈ شروئیڈر نے لیبر اصلاحات متعارف کرائی تھیں اور اس باعث ہزاروں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔ پھر قدامت پسند چانسلر انگیلا میرکل نے جنگ زدہ علاقوں کے لاکھوں متاثرین کو بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے ایک اور موقع دیا۔ میرکل کے اس پالیسی فیصلے پر سخت سوال بائیں بازو کی سیاسی جماعت ڈی لنکے کی سیاستدان ساہا ویگن کنیخٹ نے اٹھایا تھا۔
Published: undefined
بظاہر یہ نظریاتی پیچیدگیاں ہیں، جو اس صورت حال کی عکاس ہیں کہ عالمگیریت اور ڈیجیٹل اقتصاد میں مسلسل افزائش ہو رہی ہے اور ان کی وجہ سے معاشرتی تبدیلیاں بہت تیزی سے جنم لے رہی ہیں۔ ان تیز رفتار تبدیلیوں سے کوئی سیاسی جماعت یا فرد واحد پہلے سے متعین کردہ نظریاتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے سے قاصر ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined