سری نگر کا ایک اسکول اس وقت بحث کا موضوع ہے، جہاں چند روز قبل عبایا پہننے والی کئی طالبات کو کیمپس میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس پر ہنگامہ گزشتہ روز اس وقت شروع ہوا جب طالبات نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔
Published: undefined
اسکول کے اس فیصلے پر کئی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور طالبات نے اسکول کے باہر اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے پر عمل نہیں کریں گی، چاہے انہیں گھر پر ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ بھارت کی بعض دوسری ریاستوں میں پہلے بھی اس طرح کے متنازعہ فیصلوں سے ہنگامہ آرائی ہو چکی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تھا۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور بالعموم طالبات حجاب یا عبایا پہنتی ہیں۔
Published: undefined
یہ معاملہ پہلی بار پانچ جون پیر کی صبح اس وقت سامنے آیا تھا، جب سری نگر کے 'وشو بھارتی ہائر سیکنڈری' اسکول کی عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اسکول پرنسپل نے ان سے یہ کہہ کر اسکول میں داخل ہونے سے منع کر دیا کہ وہ اس لباس میں اسکول نہیں آ سکتیں۔
Published: undefined
تاہم گیارہویں اور بارہویں کلاس کی درجنوں طالبات نے جمعرات کے روز اسکول کے باہر اس کے خلاف احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ انتظامیہ نے اسکول کے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے انہیں اپنے عبایہ اتارنے کو کہا ۔
Published: undefined
اس حوالے سے بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، جس میں ایک طالبہ کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "جب میں جمعرات کی صبح اسکول آئی تو دربان نے ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس نے ہم سے کہا کہ اگر ہم حجاب پہننے پر اصرار کرتے ہیں تو ہمیں اسکول کے بجائے درسگاہ (اسلامی مدرسے) میں جانا چاہیے۔"
Published: undefined
احتجاج سے متعلق ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں 12ویں جماعت کی ایک طالبہ ریحانہ منظور جمعرات کی صبح اسکول کے احاطے میں داخل ہونے سے منع کرنے پر ایک مرد سے بحث کر رہی ہیں۔ اس میں بھی عبایا پہننے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ 12 ویں جماعت کی ایک اور طالبہ رومیسہ جان کا کہنا تھا، "میں اسکول کے ٹاپرز میں سے ایک ہوں۔ اسکول انتظامیہ نے بدھ کو میرے والدین سے بات کی اور پھر اصرار کیا کہ ہمیں عبایا ہٹا دینا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم جینز پہنیں۔ وہ ہمیں اپنی عبایوں کی وجہ سے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔"
Published: undefined
وشو بھارتی ہائر سیکنڈری اسکول سری نگر کے رینا واری علاقے میں واقع ہے، اس کی پرنسپل نمروز شفیع نے ابتدائی طور پر اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ لڑکیوں سے اسکول کے اندر ان کا عبایا ہٹانے کو کہا گیا تھا۔ تاہم ہنگامہ آرائی کے بعد نجی ملکیت والے اسکول کی انتظامیہ نے اس "غلط بیانی" کے لیے معذرت کی۔ اسکول کا کہنا ہے کہ احاطے میں عبایا پر پابندی لگانے کا کوئی انتظامی حکم نہیں تھا اور طالبات کو صرف "ڈریس کوڈ" کی پابندی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
Published: undefined
ہنگامے کے بعد پرسنپل نے اپنے ایک بیان میں کہا، "کچھ طالبات مختلف ڈیزائنوں کے ساتھ کثیر رنگوں کے عبایوں میں اسکول آتی ہیں، جو کہ اصول کے خلاف ہے۔ حجاب اسکول یونیفارم میں شامل ہے اور طالبات اسکول میں یونیفارم پہننے کی پابند بھی ہیں۔ ہم نے انہیں تین چوائسز دی ہیں۔ کوئی ان کے عبایوں کو نہیں ہٹا رہا ہے۔"
Published: undefined
بعد میں ایک بیان میں اسکول کے پرنسپل نے یہ بھی کہا کہ طلبہ کے الزامات "مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط بیانی" پر مبنی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "اسکول انتظامیہ ہمیشہ معاشرے کے تمام طبقوں کے جذبات کا احترام کرتی ہے اور ڈریس کوڈ کے معاملے میں ۔۔۔۔۔ عبایا پہننے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے لیکن شائستگی کے ساتھ طلبہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ عبایا کے نیچے اسکول یونیفارم بھی پہنیں۔"
Published: undefined
اسکول میں زیر تعلیم متعدد طالبات کے والدین اور کئی دیگر افراد نے اسکول کے اس فیصلے اور اس کے باہر پیش آنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، اس کی مذمت کی ہے۔ بیشتر افراد نے اسکول انتظامیہ پر نکتہ چینی بھی کی ہے۔ ایک طالبہ کے والد عبدالمجید نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اسکول انتظامیہ کا فیصلہ "اسلام کے اصولوں کے خلاف" ہے۔ انہوں نے کہا "میں اپنی بیٹی کو عبایا پہنے بغیر اسکول جانے کی اجازت دینے کے بجائے گھر پر بیٹھنے دوں گا۔ وہ گھر میں عبایا پہنتی ہے، تو اسکول میں عبایا پہننے پر اسکول انتظامیہ کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔"
Published: undefined
نیشنل کانفرنس کے ایک ترجمان تنویر صادق کا کہنا تھا کہ حجاب پہننا ذاتی انتخاب ہونا چاہیے اور مذہبی لباس کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "مسلم اکثریتی جموں و کشمیر میں اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ کرنا بدقسمتی کی بات ہے۔ ہم اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور فوری اصلاحی کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔"
Published: undefined
کشمیر کے مفتی اعظم ناصر الاسلام نے کہا کہ عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخلے سے روکنے کا کوئی سرکاری حکم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ ادارہ پہلے، "صرف لڑکیوں کا اسکول تھا جسے اب مخلوط تعلیم کے ادارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، لڑکیوں کو حجاب پہن کر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined