23 سالہ نربھایا اور ایک مرد دوست 16 دسمبر 2012ء کی شام کو ایک بس میں سوار ہوئے۔ ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا، لوہے کی سلاخ سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا تھا۔ نربھایا تاہم اتنی دیر تک زندہ رہی کہ وہ حملہ آوروں کی شناخت کرسکی۔ اس نے ''نربھایا‘‘، ''بے خوف‘‘ یا ''نڈر‘‘ کا لقب حاصل کیا۔
Published: undefined
سولہ دسمبر 2012 ء کو 23 سالہ نربھایا اپنے ایک دوست کے ساتھ رات گئے سنیما سے واپس گھر جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہوئی۔ بس میں اوباش مردوں کا ایک گینگ موجود تھا۔ ان مردوں نے نربھایا کو اپنی جنسی حوس کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ ناقابل ذکر انداز میں تشدد کیا۔ اجتماعی زیادتی اور انسانیت سوز مظالم کا شکار ہونے والی اس نوجوان خاتون کو بعد ازاں ان مردوں نے سڑک پر پھینک دیا تھا۔ نربھایااپنے جس دوست کے ساتھ بس پر سوار ہوئی تھی، اُسے ان جنسی حملہ آوروں نے پہلے ہی بس سے اتار دیا تھا۔ جیوتی ان گھناؤنے جرائم کا شکار ہونے کے بعد چند دن زندہ رہی۔ اُسے علاج کی غرض سے سنگاپور بھیج دیا گیا تھا جہاں آخر کار وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ نربھایا کی والدہ نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ جیوتی نے مرنے سے قبل اُن سے یعنی اپنی ماں سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اُس کے ساتھ بدترین زیادتی کرنے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کی سزا کو یقینی بنانے کے لیے سب کچھ کریں گی۔
Published: undefined
نربھایا کیس نے بھارت میں احتجاج اور مظاہروں کا طوفان برپا کر دیا تھا۔ اجتماعی زیادتی اور قتل کے اس کیس میں 6 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر مقدمات چلے۔ ایک ملزم کو کچھ عرصے حراست میں رکھنے کے بعد اس لیے رہا کر دیا گیا کہ وہ نو عمر تھا۔ ایک دیگر ملزم نے جیل میں خود کُشی کر لی تھی جبکہ بقیہ چار کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ 19 مارچ 2020 ء کو پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد ہوا اور ان چاروں مجرمان کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
Published: undefined
نربھایا کی ماں آشا دیوی نے اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، '' آخرکار میری بیٹی کو انصاف مل گیا۔‘‘ جبکہ نربھایا کے والد نے کہا تھا کہ ان کا بھارت کی عدالت پر اعتماد بحال ہو گیا ہے۔
Published: undefined
نربھایا کے ساتھ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے شرمناک اور بہیمانہ جرائم کے واقعے کو ایک دہائی کا عرصہ گزر گیا تاہم اب بھی بہت سی خواتین بھارت کے دارالحکومت میں رات کے وقت سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں، جو 20 ملین افراد پر مشتمل ایک وسیع و عریض شہر ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے متاثرہ خاتون کی ماں، اُس وقت کے چیف پولیس تفتیش کار، ایک کارکن، اور ایک نوجوان خاتون مسافر سے بات چیت کی۔
Published: undefined
''ظاہر ہے زخم بہت گہرے ہیں اور درد ختم نہیں ہوتا۔ نربھایااُن 12 سے 13 دنوں کے دوران اتنی تکلیف میں تھی مگر زندہ تھی۔‘‘ نربھایا کی ماں نے اپنے دو بیڈ روم والے دہلی کے گھر میں اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ''کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ میری بیٹی کو سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔‘‘
Published: undefined
اس حملے کے بعد سے نربھایا کی والدہ آشا دیوی خواتین کے تحفظ کے لیے ایک نمایاں مہم کار بن گئی ہیں۔ جنسی حملوں اور زیادتیوں کا شکار ہو کر بچ جانے والوں کے خاندانوں کے ساتھ مشاورت کرتی ہیں، قانونی لڑائیوں میں ان کی مدد کرتی ہیں اور انصاف کے لیے احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوتی ہیں۔
Published: undefined
57 سالہ آشا دیوی نے اپنے شوہر کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بچ جانے والی خواتین کے لیے ایک فنڈ قائم کیا ہے۔ اپنی بیٹی کے یادگاروں اور خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کے عوض انہیں کئی ایوارڈز مل چُکے ہیں اور اُن سے بھری شیشے کی کیبینٹ کے پاس اپنے گھر میں بیٹھ کر دیوی نے یہ بیانات دیے۔
Published: undefined
نربھایا کیس پر ملک بھر میں شروع ہونے والے احتجاج اور پُر زور مظاہروں کی وجہ سے بھارت میں ریپکے خلاف سخت سزاؤں کا اعلان کیا گیا، مزید سی سی ٹی وی کیمرے اور اسٹریٹ لائیٹس نصب کرنے ، اور کچھ بسوں میں سیفٹی مارشلز تعینات کرنے جیسے اقدامات کیے گئے۔
Published: undefined
یاد رہے کہ 2018 ء میں تھامس رائٹرز فاؤنڈیشن نے سینکڑوں ماہرین کی رائے پر مسشتمل خواتین کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی ایک فہرست شائع کی تھی جس کے مطابق بھارت میں دو ہزار سات سے دو ہزارسولہ کے درمیان خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں ایک سو تراسی فیصد اضافے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مزید برآں یہ کہ بھارت میں ہر گھنٹے پر چار ریپ واقعات ریکارڈ ہوتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined