پھول کماری گزشتہ تین دہائیوں سے شمال مغربی بنگلہ دیش میں چائے کے کھیتوں میں مزدوری کررہی ہیں۔ لیکن 45 سالہ اس خاتون کا کہنا ہے کہ فصل کی کٹائی کے اس موسم میں انہوں نے اتنی شدید گرمی اور خشک سالی کبھی نہیں دیکھی۔
Published: undefined
جنوبی شہری سلہٹ کے سری منگل میں کھیت میں کام کرتے ہوئے چند لمحوں کے لیے چائے اورپانی کے وقفے کے دوران وہ کہتی ہیں،" گرمی اتنی زیادہ ہے کہ میں اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتی۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اپنے کچن میں کوکر کے پاس کھڑی ہوں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسی حالت کبھی نہیں دیکھی۔"
Published: undefined
سری منگل بنگلہ دیش کی چائے کی راجدھانی ہے۔روایتی طورپر یہاں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے اور درجہ حرارت گوکہ 30ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوتا ہے لیکن بونداباندی ہوجانے سے موسم خو شگوار ہوجاتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں جیسے جیسے کرہ ارض گرم ہورہا ہے، درجہ حرارت بھی بڑھتا جارہا ہے اور مئی میں سری منگل میں درجہ حرارت 39 ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔ اور اس پر المیہ یہ کہ معمول کے مقابلے نصف سے بھی کم بارش ہوئی ہے۔
Published: undefined
اس صورت حال کے سبب علاقے میں چائے کی کٹائی، جو گزشتہ برس اب تک مکمل ہوچکی تھی، صرف نصف ہوسکی ہے۔ سیاحوں کی آمد بھی نہیں ہورہی ہے جو اس خوبصورت پہاڑی علاقے کے بارانی جنگلات، جھیلوں اور دلکش چائے باغات کو دیکھنے کے لیے کھنچے چلے آتے تھے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرم ہوائیں تجارت اور اس سے وابستہ مزدوروں کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں اور یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان پر انحصار کرنے والی معیشتیں اور عوام ان کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے۔
Published: undefined
سری منگل ٹورزم سروس آرگنائزیشن کے جنرل سکریٹری قاضی شمس الحق بتاتے ہیں کہ سیاحوں کو 60 فیصد تک رعایت دینے کے باوجود ہم انہیں راغب نہیں کرپارہے ہیں، وہ گرمی اور خشک سالی سے خوف زدہ ہیں۔" یہ ہمارے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔"
Published: undefined
وہ بتاتے ہیں، "بارش کا موسم سری منگل کے لیے سیاحت کا سب سے بہترین وقت ہوتا ہے۔ اس علاقے میں 60 ریزارٹ ہیں لیکن اس مرتبہ سیاح یہاں نہیں آرہے ہیں۔" انہوں نے کہا،" ہم اکثر ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں سنتے رہتے تھے اور اب ہم اپنے علاقے میں اس کے اثرات بھی دیکھ سکتے ہیں۔"
Published: undefined
برطانوی نو آبادیاتی دور حکومت میں سری منگل میں پہلی مرتبہ چائے باغات لگائے گئے تھے۔ یہ علاقہ بالعموم متعدل درجہ حرارت کے لیے جانا جاتا ہے۔ منی ہاجرا، اس علاقے کے ایک چائے باغ میں چائے کی پتیاں توڑنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں ایک دن میں بالعموم پچاس ساٹھ کلو چائے کی پتیاں توڑ لیتی تھیں لیکن اس سال صرف پندرہ کلو ہی توڑ پاتی ہیں، اس کی وجہ سے ان کی آمدنی بھی متاثر ہوئی ہے۔
Published: undefined
وہ بتاتی ہیں،" گرمی میں کام کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میرا پورا جسم جھلس گیا اورپانی ڈالنے کے بعد بھی کچھ خاص راحت نہیں ملتی ہے۔" گرمی کی وجہ سے تھکان اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ وہ مزدوری کے بعد واپس لوٹنے پر گھر کے ضروری کام کاج بھی نہیں کرپاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں یاد نہیں پڑتا کہ اتنا سخت موسم کبھی رہا ہو۔ "ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔مناسب بارش ہونے کی وجہ سے ہم گرمی میں بھی بڑے آرام سے اپنا کام کرلیتے تھے۔"
Published: undefined
دریں اثنا اتنی زیادہ گرمی نے نہ صرف بنگلہ دیش میں چائے کے مزدوروں کے لیے خطرہ پیدا کردیا بلکہ ماہرین کے مطابق چائے کے پودوں بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش ٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں پرنسپل سائنٹفک افسر محمد عبدالعزیز کہتے ہیں کہ چائے کی پیداوار کے لیے بہترین درجہ حرارت 15سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ کا ہوتا ہے لیکن 29 ڈگری سینٹی گریڈ تک بالعموم چائے کی پیداوار میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ پچھلے دو برسوں کے دوران درجہ حرارت بالترتیب 36اور 37ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا اور اس برس یہ 39ڈگری تک پہنچ چکا ہے ایسے میں پیداوار میں کمی آرہی ہے۔"
Published: undefined
بنگلہ دیش ایگری کلچرل یونیورسٹی میں زرعی تحقیق کے پروفیسر رمیزالدین کہتے ہیں کہ درجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافے سے کیڑے مکوڑوں کا مسئلہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔ ایک مخصو ص قسم کا کیڑا ریڈ اسپائڈر مائٹ، پتیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اور انہیں بچانے کے لیے جراثیم کش ادویات کا استعمال ضروری ہوگیا ہے۔ رمیز الدین کہتے ہیں کہ گرمی کے سبب اور بارش نہیں ہونے کی وجہ سے چائے کے پودوں میں نئی پتیاں نہیں آرہی ہیں۔ بنگلہ دیش ٹی بورڈ کا کہنا ہے کہ اس سال چائے کی پیداوار میں واضح کمی آئے گی۔
Published: undefined
گرمی میں اضافے کے مدنظر، جس میں آنے والے برسوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، چائے کی کاشت کرنے والوں کے پاس مزدوروں کی مدد کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ وہ انہیں پینے کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی فراہم کریں، آرام کا موقع دیں اور ری ہائیڈریشن سالٹ دستیاب کرائیں۔
Published: undefined
چائے کی پتیاں توڑنے والے جو پہلے باغات کے مالکان کی طرف سے فراہم کردہ چائے پینے کے لیے بالعموم صرف ایک بار دوپہر کے وقت وقفہ کرتے تھے اب اپنے ساتھ پانی کے بوتل لے کر آتے ہیں اور پانی پیتے رہتے ہیں تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے۔
Published: undefined
مقامی سری منگل گورنمنٹ کالج میں سیکنڈری اسکول کے طالب علم اور ماحولیاتی کارکن قاضی قمرالحیدر اس صورت حال سے کافی مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں،"دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کے ذریعہ ہی ہمارے علاقے کو بچایا جاسکتا ہے۔"
Published: undefined
دوسری طرف ڈھاکہ میں انٹرنیشنل سینٹر فار کلائمٹ چینج اینڈ ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر سلیم الحق کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو اپنے طورپر تیار رہنے کے لیے خود بھی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مضمرات کا سامنا کرسکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined