سماج

ایک نظر ادھر بھی: صوفی روایات اور سینیگال کا مقدس شہرِ توبہ

افریقی ملک سینیگال کے توبہ نامی شہر کو اس ملک کا مقدس ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ فرانسیسی نوآبادیاتی حکام نے اس خطے میں مریدیہ صوفی سلسلے کے بانی شیخ احمدو بمبا کو بطور سزا اسی شہر میں جلاوطن کیا تھا۔

صوفی روایات اور سینیگال کا مقدس شہرِ توبہ
صوفی روایات اور سینیگال کا مقدس شہرِ توبہ 

گزشتہ اتوار کو سینیگال کے مقدس شہر توبہ میں ہر طرف زائرین کا ہجوم تھا۔ مریدیہ سلسلے کے اس سالانہ اجتماع پر ملک بھر سے لوگ اس شہر میں آتے ہیں۔ یہ اجتماع توبہ شہر کی سب سے بڑی مسجد میں ہوتا ہے، جہاں صوفی سلسلے مریدیہ کے بانی شیخ احمدو بمبا کی قبر بھی ہے۔ اس موقع پر توبہ کی سڑکوں پر ہر طرف ہجوم ہی ہجوم ہوتا ہے اور دور دور تک ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

اس اجتماع کا نام 'گرینڈ میگل‘ ہے اور اس کا انعقاد ہر سال اسی دن کیا جاتا ہے، جس دن فرانسیسی نوآبادیاتی حکام نے شیخ احمدو بمبا کو بطور سزا اسی شہر میں جلاوطن کیا تھا۔ اس دن کو 'سیرگنی توبہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اس مغربی افریقی ملک کی تاریخ کا ایک اہم دن سمجھا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر سے لاکھوں زائرین شیخ احمدو بمبا کا کلام پڑھتے ہیں اور مقبرے پر حاضری دیتے ہوئے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔

Published: undefined

سینیگال کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ صوفی سلسلے مریدیہ کے ہی پیروکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیگال کی معیشت اور سیاست میں اس صوفی سلسلے کا انتہائی اہم کردار ہے۔

Published: undefined

شیخ احمدو بمبا نے اس شہر کی بنیاد 1888ء میں رکھی تھی اور اس کے بعد سے اس کی آبادی میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اب توبہ شہر دارالحکومت ڈاکار کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر بن چکا ہے اور اس کی آبادی تقریبا پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ سالانہ اجتماع ویسے تو ایک مذہبی تہوار ہے لیکن اس کی سیاسی اہمیت بھی ہے۔ ملک کے تمام بڑے سیاستدان اس میں شامل ہوتے ہیں تاکہ عوام کی پسندیدگی حاصل کر سکیں۔

Published: undefined

شیخ احمدو بمبا کون تھے؟

احمدو بمبا کا تعلق سینیگال کے ایک قدیم خاندان سے تھا اور ان کے والد قادریہ صوفی سلسلے کے ایک عالم سمجھے جاتے تھے۔ بامبا نے ابتدائی عمر میں ہی قرآن سیکھا اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے تصوف پر سولہ سو مصرعوں پر مشتمل ایک نظم لکھی تھی، جو آج بھی بہت مشہور ہے۔

Published: undefined

احمدو بمبا وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں انتہائی مشہور ہوتے گئے اور ان کے صوفیانہ کلام کی وجہ سے ان کے پیروکاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت خطے میں مختلف علاقوں پر قبضہ کر رہی تھے۔ فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت بمبا کی بڑھتی ہوئی شہرت سے پریشان تھی اور اسے ڈر تھا کہ ان کے پیروکار ان کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔

Published: undefined

فرانسیسی حکومت نے احمدو بمبا کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ پیروکاروں میں اس وقت کے کئی قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ کئی روایات میں احمدو بمبا کی کرامات مشہور ہیں کہ کس طرح انہوں نے لوہے کی زنجیروں سے خود کو آزاد کروایا اور نماز ادا کی۔ اسی طرح یہ کہانی بھی مشہور ہے کہ وہ پانی پر چل سکتے تھے۔

Published: undefined

تاہم ان روایات کی تصدیق تو ممکن نہیں ہے لیکن یہ واضح ہے کہ احمدو بمبا فرانسیسی قبضے کے خلاف تھے اور ایک اسلامی حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ فرانسیسی حکام کو بعدازاں احساس ہوا کہ وہ کوئی مسلح جدو جہد نہیں چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے کئی برس بعد فرانسیسی حکام نے ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک اعلی ترین اعزاز دینے کا فیصلہ کیا لیکن انہوں نے یہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تب فرانسیسی حکام نے انہیں توبہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دیے رکھی۔ فرانسیسی حکام کے مطابق احمدو بمبا کے ساتھ اچھے تعلقات ان کے اپنے معاشی مفادات کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے تھے۔ احمدو بمبا کی وفات انیس سو ستائیس میں ہوئی اور انہیں وہاں ہی دفن کیا گیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined