بلوچستان میں اونچے پہاڑوں میں گھرے پر فضا مقامات کی بہتات ہے، مگر آبادی اور ذرائع مواصلات نہ ہونے کے باعث ان کی اکثریت ابھی تک سیاحوں کی نظر سے پو شیدہ ہے۔ انہی میں سے ایک آب شفا چشمہ ہے جسے مقامی افراد سندھی میں 'ٹھار لا کھا ٹھار‘ بھی کہتے ہیں جس کا ماخذ یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر واقع پیر لا کھو کا مزار ہے اور اس سے متصل پتھروں سے بنی ہوئی ایک مسجد بھی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق اس درگاہ سے یہ روایت منسوب ہے کہ کوئی مریض اگر پیر لاکھو کا نام لے کر اس چشمے کے پانی میں غسل کرے تو اس سے ہر طرح کی الرجی سے کچھ دن میں شفا مل جاتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے ہزاروں زائرین اس درگاہ پر حاضری دینے آتے ہیں جن کی اکثریت کسی طرح کی الرجی میں مبتلا افراد کی ہوتی ہے۔
Published: undefined
کیا اس چشمے کے پانی میں الرجی کے مریضوں کی شفاء ہے یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے یہاں آنے والے سیاح ببرک کارمل جمالی سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق جھل مگسی سے ہے اور وہ برسوں سے ایسا سنتے آئے ہیں: ''اس کے پانی میں ہر طرح کی الرجی کا علاج ہے۔ اگرچہ اس چشمے تک پہنچنا آسان نہیں ہے اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کو پیدل یا بائیک کے ذریعے ہی عبور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود ہر موسم خصوصاﹰ گرمیوں میں یہاں ہر برس ہزاروں زائرین اور مریض آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر لوٹتے ہیں۔‘‘ ببرک کے مطابق انھوں نے کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ اس کے چشمے کے پانی میں پہاڑوں سے معدنیات شامل ہو جاتی ہیں جو جِلدی امراض کے لیے شفا اور ٹھنڈک کا باعث بنتی ہیں مگر ابھی تک اس پانی کا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ نہیں کروایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اس پانی کو یہاں سے چند کلومیٹر دور لے جایا جائے تو اس کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
چونکہ بلوچستان میں تعلیم و شعور کی کمی ہے لہٰذا یہاں کے مقامی افراد یہ نہیں جانتے کہ گرم پانیوں کے ایسے چشمے دنیا کے کئی حصوں میں موجود ہیں جن کے بارے میں معلومات قدیم رومن اور مصری تاریخ سے حاصل ہوتی ہیں۔ ان چشموں کے پانیوں میں شامل سلفر جِلد کے امراض کی شفا کا باعث بنتی ہے مگر یہ پانی صحت خصوصاﹰ انسانی نظام ِ انہضام کے لیے شدید نقصان دہ بھی ہے۔
Published: undefined
جرنل آف ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ پروموشن میں شائع ہونے والی ایرانی محقق محمد مہدی پارویزی کی ایک تحقیق کے مطابق انسانی جِلد کے سیل کی اوپری تہہ ایپی ڈرمس میں سلفر اور آکسیجن کے تعامل سے جو ہائیدروجن سلفائیڈ تیار ہوتا ہے وہ بعد ازاں پینٹوتھینک ایسڈ یا وٹامن بی فائیو میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی چشمے کے پانی میں اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی فنگس سرگرمی اسی پینٹو تھینک ایسڈ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ یہ پانی الرجی، کیل مہاسوں کے علاج ، ٹانگوں کے السر اور ایسے امراض کے علاج میں معاونت کرتا ہے جو انسانی مدافعاتی نظام کو کمزور کرتے ہیں۔
Published: undefined
چونکہ آب شفا چشمہ بلند پہاڑی سلسلوں سے پھوٹتا ہے جہاں سے سلفر کی کچھ مقدار پانی میں شامل ہوتی رہتی ہے، اس پانی میں نہانے سے یہ سلفر انسانی جلد میں داخل اور آکسی ڈائزڈ ہو کر الرجی کے امراض کی شفا کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرماٹولوجی میں ایسی تھیراپیز کا استعمال بڑھ رہا ہے جن میں قدرتی معدنیات شامل ہوں۔
Published: undefined
آب شفاء کا یہ دیدہ زیب مقام ایک ویرانہ ہے مگر اب امید ہو چلی ہے کہ سی پیک مکمل ہو نے کے بعد اس مقام کی سیاحتی اہمیت میں اضافہ ہو جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined