اولمپک چیمپیئن مو فرح صومالیہ سے الگ ہونے والے موجودہ ملک صومالی لینڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ رواں ہفتے انہوں نے بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم میں انکشاف کیا کہ کس طرح آٹھ یا نو برس کی عمر میں انہیں ان کے خاندان سے الگ کر دیا گیا اور پڑوسی ملک جبوتی سے ایک نئی شناخت کے ساتھ برطانیہ اسمگل کیا گیا۔ یہ نیا نام مو فرح تھا، اور آج اسی نام کے ساتھ وہ شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔
Published: undefined
صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں جن لوگوں نے فرح کی کہانی سنی، وہ لوگ بطور غلام کام کرنے پر مجبور ہونے والے پہلو پر غم اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس طرح کے استحصال کا شکار ہونے والے مو فرح تنہا نہیں ہیں۔
Published: undefined
تنازعات، ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی تباہی کے باعث دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں پناہ کے متلاشی افراد ایسے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ رہے ہیں جو لوگوں کو امریکہ، برطانیہ یا دیگر یورپی ممالک میں اسمگل کر کے منافع کماتے ہیں۔
Published: undefined
صومالی باشندے بھی اریٹریا اور ایتھوپیا جیسے دیگر پڑوسی ممالک کے باسیوں کی طرح بہتر زندگی کی تلاش میں اور تنازعات اور غربت سے فرار اختیار کر کے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔
Published: undefined
کئی لوگ زندگی خطرے میں ڈال کر خطرناک سمندری راستے اختیار کرتے ہیں اور جو لوگ تعلیم اور استطاعت رکھتے ہیں، وہ ملازمتیں تلاش کر کے بیرون ملک جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں انسانوں کی اسمگلگ کے کاروبار سے وابستہ جرائم پیشہ افراد ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتے ہیں۔ ایسے افراد کے ہاتھ لگ جانے کی صورت میں انہیں جسم فروشی، منشیات فروشی اور گھروں میں بطور غلام کام کرنے تک پر مجبور کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
برطانیہ جیسے امیر ملک جہاں ایک طرف یوکرینی مہاجرین کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں تو دوسری جانب پناہ کے متلاشی افراد کو روانڈا بھیجنے کی تجویز پیش کر دیتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوں جرائم پیشہ افراد کا کاروباری ماڈل توڑا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
تین سمر اولمپکس میں برطانیہ کی نمائندگی کرنے والے مو فرح کی کامیابی ایک نادر کہانی ہے۔ صومالیہ جیسے ممالک میں بھوک، غربت اور تشدد سے بچنےکی کوشش کرنے والے اکثر لوگ ان کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتے۔
Published: undefined
اسی تناظر میں صومالیہ میں سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ مقامی حکومتوں کی مدد کر کے نقل مکانی پر مجبور ہو جانے کی وجوہات کا تدارک کرنا بہت ضروری ہے۔
Published: undefined
صومالیہ میں بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن احمد کہتے ہیں، ''یہ بہت افسوسناک ہے کہ مو فرح کو بچپن میں ایسے تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بچوں کی اسمگلنگ کے پیچھے کئی محرکات کار فرما ہیں، جن میں غربت، مناسب تعلیم کا فقدان اور عدم تحفظ جیسے عوامل شامل ہیں۔‘‘
Published: undefined
فرح کے خاندان کے کئی افراد اب بھی صومالی لینڈ میں مقیم ہیں، جن میں ان کی والدہ اور دو بھائی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ چار برس کے تھے تو صومالیہ میں بدامنی کے دوران کے والد کو مار دیا گیا تھا۔
Published: undefined
دستاویزی فلم میں فرح نے بتایا کہ جب انہوں نے افریقہ چھوڑا تو سوچا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کے لیے یورپ جا رہے ہیں اور ان کے پاس ایک کاغذ پر وہاں رابطے کی تفصیلات تھیں۔ لیکن وہ جس خاتون کے پاس پہنچے اس نے وہ کاغذ پھاڑ کر پھینک دیا اور مو فرح کو مغربی لندن کے ایک اپارٹمنٹ میں لے گئی جہاں اسے بچوں کی دیکھ بھال پر مجبور کیا گیا۔
Published: undefined
فرح نے کہا کہ برطانیہ میں ان کی قسمت آخرکار تب بدلی جب انہیں سکول جانے کی اجازت ملی۔ اس وقت کے ایک اسکول ٹیچر نے بتایا کہ انہیں یاد ہے کہ فرح 12 برس کی عمر کا ایک لڑکا تھا جو 'جذباتی اور ثقافتی طور پر الگ تھلگ‘ دکھائی دیتا تھا اور بہت کم انگریزی بولتا تھا۔
Published: undefined
فرح نے اپنی کہانی ایک فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹر کو سنائی۔ استاد نے مقامی حکام سے رابطہ کیا، جنہوں نے فرح کی پرورش کے لیے اسے ایک صومالی خاندان کے حوالے کر دیا۔ غلامی کے خلاف سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ فرح دور جدید کی غلامی کے شکار ہونے والی سب سے نمایاں شخصیت ہیں۔ کیوں کہ یہ ایسا جرم ہے جو اکثر منظر عام پر نہیں آتا۔
Published: undefined
صومالیہ میں مقیم ماہر تعلیم بشیر عابدی کا کہنا ہے کہ اب جب کہ مو فرح جیسی معروف شخصیت کی کہانی سامنے آئی ہے تو ''اب کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ ایسی صورت حال کا کئی دیگر صومالی بچوں کو بھی سامنا ہے۔ بچوں کو مسلسل بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن فرح کی کہانی نے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔‘‘
Published: undefined
موغادیشو کی رہائشی آمنہ علی کہتی ہیں کہ ان کے لیے مو فرح کی کہانی سننا بہت مشکل تھا۔ انہوں نے کہا، ''ایک ماں کے طور جب میں نے یہ واقعہ سنا تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ اللہ کا شکر ہے اب وہ حالات نہیں رہے اور اب وہ ایسے مقام پر ہے جہاں وہ اپنی کہانی بیان کر سکتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز