رواں برس ٹی وی ڈرامہ 'قصہ مہر بانو کا‘ اپنے ایک مکالمے کی وجہ سے بہت زیر بحث رہا۔ ایک منظر میں بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے، ''محبت اور نکاح کے نام پہ کیا جانے والا ظلم بھی ظلم ہی ہوتا ہے۔‘‘ اس مکالمے کا پس منظر شوہر کا بیوی کی رضامندی اور مرضی کے بغیر اس سے سیکس کرنا تھا۔ میریٹل ریپ جیسے حساس موضوع پر بات کرنے کی وجہ سے جہاں اس ٹی وی ڈرامے کو بہت سراہا گیا وہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کا کہنا تھا، ''آئیں اٹھ کھڑے ہوں اور خواتین کے حقوق کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں۔‘‘ خواتین کے خلاف کیے جانے والے مختلف اقسام کے تشدد کی اقوام متحدہ کی فہرست میں میریٹل ریپ بھی شامل ہے۔
Published: undefined
دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں میریٹل ریپ کو نہ صرف سماجی سطح پر تشدد سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے خلاف سخت قوانین بھی بن چکے ہیں۔ مگر پاکستانی میں اس موضوع پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ خواتین کے حقوق کی سرگرم رکن اور قائد اعظم یونیورسٹی میں جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی سابق سربراہ فرزانہ باری اس کی جڑیں پدرسری معاشرے میں دیکھتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ہمارے معاشرے کا ڈھانچہ آج بھی صدیوں سے رائج پدرسری اقدار پر مضبوطی سے استوار ہے، جس میں خواتین کا کردار مرد کی تسکین اور اس کا وارث پیدا کرنے تک محدود ہے۔ عورت کو شادی سمیت کسی بھی سماجی معاہدے میں برابر کا انسان تصور نہیں کیا جاتا۔‘‘
Published: undefined
وہ کہتی ہیں، ''ہمارا معاشرہ تو ابھی تک محفوظ جنسی تعامل پر متفق نہیں، میریٹل ریپ پدرسری اقدار کو اپنے زخموں پر نمک محسوس ہوتا ہے۔ سو اسے برداشت نہیں کیا جاتا۔ اسے یہود و ہنود کی سازش اور اپنی معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ سماجی دباؤ خواتین کو اپنے خلاف ہونے والے تشدد پر آواز تک نہیں اٹھانے دیتا۔‘‘
Published: undefined
اسلام آباد ہائی کورٹ سے وابستہ نامور وکیل اور سماجی دانشور آصف محمود ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''تعزیرات پاکستان کی دفعہ 375 کے مطابق میریٹل ریپ بھی ریپ ہی سمجھا جائے گا۔‘‘ وہ کہتے ہیں،''حدود آرڈیننس میں ریپ کی تعریف میں ازدواجی رشتے کا ذکر بطور استثنا موجود تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا۔ اب اگر یہ فعل کسی کی مرضی کے بغیر یا جبری طور پر کیا جاتا ہے یا موت اور جسمانی ضرر کی دھمکی سے رضامندی حاصل کی جاتی ہے تو یہ ریپ ہو گا۔‘‘
Published: undefined
آصف محمود اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس امر پر اختلافی آرا موجود ہیں کہ میریٹل ریپ کو ریپ سمجھا جائے گا یا تشدد کے باب میں دیکھا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے رکن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’فقہ میں مرد اور عورت کی حیثیت برابری کی نہیں اس لیے ہمارے قوانین میں اسے ریپ نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرد کی ضروریات پوری کرے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ شادی کے تعلق میں عورت مرد کی ملکیت بن جاتی ہے اور جب رخصتی ہو گئی تو وہاں مرد کی اطاعت اس کے لیے لازمی ہے، اسی لیے اسے بیت الطاعة کہتے ہیں، '' ایسی بہت سی مباحث ہیں جن کی وجہ سے شوہر کا بیوی سے زبردستی جنسی عمل ریپ نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘‘
Published: undefined
خواتین کے تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے قائم کردہ صوبائی ادارے پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن سے وابستہ قانونی مشیر آمنہ آصف کہتی ہیں کہ یہ قوانین واضح نہیں، ان میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب قانونی حوالے سے پیچیدگی موجود ہو تو عوامی سطح پر ایسے مسائل کے بارے میں بات کرنا اور ان کی تدارک کی کوششیں نہایت مشکل ہو جاتی ہیں، ''اس لیے واضح قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ میریٹل ریپ کو روکنے کے لیے قانونی اور سماجی دونوں سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں نصاب اور میڈیا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نصاب میں یہ چیزیں کسی نہ کسی سطح پر شامل ہونی چاہیں، '' اس سے لڑکوں کو پتہ چلے گا کہ ایسا کرنا غیر انسانی رویہ اور تشدد ہے جبکہ لڑکیاں آگاہ ہوں گی کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ جب خواتین کو پتہ ہی نہیں ہو گا کہ یہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے تو وہ کیسے آواز اٹھائیں گی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ''میڈیا نے بہت سارے حساس موضوعات کی حساسیت کم کی ہے۔ سو میریٹل ریپ کے حوالے سے پر لکھا جانا چاہیے، دکھایا جانا چاہیے، بولا جانا چاہیے۔ اس موضوع پر ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بننی چاہییں۔ جب تک بات نہیں ہو گی بات بنے گی نہیں۔‘‘
Published: undefined
آمنہ آصف کہتی ہیں کہ جب حکومتیں اس معاملے میں دلچسپی نہیں لیں گی تو بڑی سطح پر میریٹل ریپ کے خلاف فضا ہموار نہیں ہو گی، ''یہ ایسا معاملہ ہے جس پر پولیس اور متعلقہ شعبہ جات میں آگاہی دینے اور ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے۔ کیوں اگر کبھی ان کے پاس شکایت پہنچے بھی تو وہ متاثرہ خاتون کو ہی عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی جرم کر رہی ہے۔ کیوں کہ افسران خود نہیں جانتے کہ یہ کیسا غیر انسانی رویہ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری حقوق انسانی کی تنظیموں اور حکومتی اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے، اس حوالے سے باقاعدہ مہم ڈیزائن کرنی چاہیے اور میڈیا کی مدد سے آگاہی کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے، ''اس میں شعبہ صحت کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ نفسیاتی سطح پر متاثرہ خاتون کی مدد کر سکے۔”
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز