بھارت میں ویسے ہر جگہ مرد کا حکم چلتا ہے۔ لیکن کھاسی قبیلے کی روایات اس عمومی سماجی نظام کے برعکس ہیں۔ کھاسی قبیلہ شمال مشرقی ریاست مگھالایا میں آباد ہے۔ اس قبیلے میں نسب ماں سے چلتا ہے اور جائداد بھی مرد کی بجائے عورت کو منتقل ہوتی ہے۔
Published: undefined
کھاسی قبیلے کی آبادی تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ لوگ ریاستی آبادی کا پینتیس فیصد ہیں۔ قبیلے کی ان روایات پر مردوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور وہ عدم مساوات کے اس نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اس قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون مارگریٹ لینگڈُو ہیں۔ وہ ایسٹونیا کی ٹارٹو یونیورسٹی کی ریسرچر ہیں۔ مارگریٹ لینگدُو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قبیلے کی خاندانی روایت کا ماضی کسی حد تک ماوارائی ہے اور اس کا سلسلہ اس دور سے جڑتا ہے جب مرد جنگوں پر جایا کرتے تھے اور عورتیں پیچھے رہ کر گھر بار اور قبیلے کو سنبھالا کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ تب سے اسی طرح جاری ہے۔
Published: undefined
خواتین خاندانوں کی سربراہ ہوتی ہیں اور مالی معاملات میں آزاد اور خودمختار ہوتی ہیں۔ معاشی اور سماجی لحاظ سے برتری کے باوجود کھاسی کمیونٹی کی عورتیں سیاست سے دور ہیں اور الیکشن وغیرہ میں خاص حصہ نہیں لیتیں۔ ریاست کے طاقت کے ایوانوں میں اب بھی مردوں کی اکثریت ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
مارگریٹ لینگڈُو کا کہنا ہے کہ جہاں تک وراثتی جائداد کا تعلق ہے، اس کی مالک کسی بھی گھر یا خاندن کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوتی ہے، شاید اس لیے کہ وہ جائداد فروخت نہیں کرسکتی ہے۔ اس طرح چھوٹی بیٹی ہی قبیلے میں نسب کی بھی مالک و نگران ہوتی ہے۔ وراثتی جائداد میں زمین کے علاوہ سونا یا کورال (مونگا) کے زیورات، قیمتی کپڑے اور روایتی ذمہ داریاں بھی شامل ہوتی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اس قبیلے کے بعض مردوں کو شکایت ہے کہ اس زنانہ نظام میں مرد پستے چلے آئے ہیں۔ قبیلے میں مردوں کے حقوق کی تنظیم ایس آر ٹی (SRT) کے سابق صدر کیتھ پاریاٹ کا کہنا ہے کہ بازار ہوں یا سرکاری دفاتر ہر جگہ عورتیں چھائی ہوئی ہیں۔ یہ تنظیم سن 1960 میں قائم کی گئی تھی۔ اس کے قیام میں قبیلے کے بزرگ حضرات کے ساتھ ڈاکٹرز اور ٹیچرز بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
تنظیم کے قیام کی بنیادی وجہ کھاسی قبیلے کی روایت میں مردوں کا نظرانداز ہو جانا ہے۔ کیتھ پاریاٹ کا کہنا ہے کہ عورتوں کے اس نظام میں مرد دب کر رہ گئے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
کھاسی قبیلے کی روایت ہے کہ اگر کوئی مرد چھوٹی بیٹی سے شادی کرتا ہے تو اسے بیوی کے گھر یعنی اپنے سسرال منتقل ہونا پڑتا ہے۔ پاریاٹ کا کہنا ہے کہ اسی لیے کھاسی قبیلے میں لڑکوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ وہ آخرکار خاندانی مال لے کر بیوی کے پاس منتقل ہوجاتے ہیں۔ پاریاٹ کے مطابق بیوی کے گھر میں شوہر کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور وہاں بیوی کے ماموں اور دوسرے مرد ہر کام میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ پاریاٹ نے بتایا کے مرد کو اپنے بچوں پر بھی زیادہ اختیار نہیں اور بچے ماں کا خاندانی نام اختیار کرتے ہیں۔ شوہر کو اگر کوئی پریشانی یا مسئلہ آجائے تو وہ اپنی بہن سے رابطہ کرسکتا ہے کیونکہ وہی خاندان کی سربراہ ہوتی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
کیتھ پاریاٹ کا کہنا ہے کہ کھاسی قبیلے میں مرد بظاہر ایک آزاد پنچھی کی طرح ہوتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بے اختیار اور نظرانداز ہونے کے باعث ان میں منشیات، شراب نوشی اور ادھر ادھر ہم بستری کی روش پڑ جاتی ہے۔
Published: undefined
پاریاٹ کا کہنا ہے کہ شاید کچھ مردوں کے لیے یہ ایک آئیڈیل زندگی ہو لیکن یہ بربادی کا راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کے لیے کھاسی لڑکیاں اب اپنی کمیونٹی کی بجائے باہر کے پڑھے لکھے مردوں کو فوقیت دیتی ہیں۔
Published: undefined
پاریاٹ کے مطابق ایس آر ٹی تنطیم کے ہزاروں مرد اراکین وراثتی قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں پچاس کے قریب خواتین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کے مطالبے میں یہ بھی شامل ہے کہ بچے کے نام کے ساتھ ماں کی بجائے باپ کا نام ہونا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز