یورپ میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب فرانسیسی انقلاب میں لوگوں نے ہجوم کی صورت میں حصہ لیا۔ اس ہیش رفت نے یورپی حکومتوں کو خوفزدہ کر دیا اور اس بات پر غور ہونے لگا کہ ہجوم کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ اور انقلابی تحریکوں کو کس طرح ختم کیا جائے۔؟ انگلستان میں صنعتی انقلاب کی وجہ سے ٹریڈ یونینز مضبوط ہو گئی تھیں اور ریاست اور سرمایہ دار طبقہ ڈرتا تھا کہ کہیں یہاں بھی انقلاب نہ آ جائے۔
Published: undefined
1819ء میں مانچسٹر میں مزدوروں کا ایک بڑا اجتماع ہو رہا تھا۔ فوج نے اسے منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی، جس میں کئی مزدور مارے گئے۔ تاریخ میں اسے پٹیرلو (Peterlu) کہا جاتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی صورتحال بدل رہی تھی، لوگوں میں سیاسی شعور بدل رہا تھا۔
Published: undefined
دانشوروں کا ایک طبقہ وجود میں آ گیا تھا، جو لوگوں میں اپنی تحریروں کے ذریعے آگاہی پیدا کر رہے تھے اور عوام بھی اپنے حقوق کے لیے سرگرم ہو گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1848ء میں یورپ میں انقلابی تحریکیں اٹھیں۔ پیرس، برلن، ویانا اور مشرقی یورپ کے ملکوں میں ہجوم انقلاب لے کر آ گیا، لیکن انقلابی اور دانشوروں کے اختلافات کی وجہ سے یہ انقلاب ناکام ہوا، اگرچہ انقلاب ناکام تو ہو گیا، لیکن یورپ کے حکمران طبقے نے اس پر غور کرنا شروع کیا کہ ہجوم کو کس طرح کنٹرول کیا جائے؟
Published: undefined
اس سلسلے میں پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ پیرس، برلن، ویانا اور دوسرے شہروں کی نئے سرے سے تعمیر کی گئی، کیونکہ جب بھی فوج اور ہجوم میں تصادم ہوتا تھا تو ہجوم شہر کی تنگ گلیوں میں جا کر فوج سے لڑتا تھا۔ ہجوم کو فوج سے لڑنے کا کافی تجربہ ہو گیا تھا۔ وہ گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کر کے فوجی نقل و حرکت کو روک دیتے تھے اور رکاوٹوں کے پیچھے سے فوج پر پتھراؤ بھی کرتے تھے اور فائرنگ بھی۔ ان حالات میں فوج ہجوم کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
Published: undefined
لہٰذا یورپی حکومتوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ شہر کے مراکز جہاں ہنگامے ہوتے تھے وہاں سے عام لوگوں کو منتقل کر دیا جائے اور شہر کی سڑکوں کو کشادہ اور سیدھا کر دیا جائے، تاکہ فوج ایکشن لے سکے اور ہجوم کے لیے کوئی پناہ کی جگہ نہ رہے۔ اس تجربہ کی طرز پر برطانوی حکومت نے ہندوستان میں فائدہ اٹھایا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد لکھنو اور لاہور کے نئے شہروں کی اسی طرح سے تعمیر کی گئی کہ جس میں فوج ہجوم کا مقابلہ کر سکے۔
Published: undefined
دوسرے اہم اقدامات جو اٹھائے گئے ان میں سخت قوانین کو نافذ کیا گیا۔ سینسر شپ کے ذریعے انقلابی خیالات کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ ریاست کے خلاف غداری کے کئی قوانین بنائے گئے، جن میں ہجوم کے رہنماؤں کو نہ صرف قید و بند کی سزائیں دیں، بلکہ انہیں پھانسیں بھی دی۔ فوج اور ہجوم کے درمیان ہونے والے تصادم میں فوج کو یہ قانونی حق دیا گیا تھا کہ وہ فائرنگ کرکے مجمع کو منتشر بھی کر سکتی ہے۔ فائرنگ کے ساتھ ساتھ آگے چل کر لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور اب مجمع کو کنٹرول کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
اس کے برعکس Sir Robert Peel نے 1829ء میں پولیس کا ڈیپارٹمنٹ بنایا، لیکن انہوں نے پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے آتشیں اسلحہ نہیں دیا، بلکہ پولیس کو عوامی خدمت کے لیے استعمال کیا، جبکہ دوسرے یورپی ملکوں میں ریاست اور ہجوم ایک دوسرے سے متصادم رہے۔
Published: undefined
ریاست اور ہجوم کے درمیان یہ تصادم نوآبادیات میں بھی پیدا ہوا، کیونکہ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں جہاں یورپی اقتدار قائم تھا۔ وہ ہجوم کی سیاست سے خوفزدہ رہتے تھے۔ یہی وہ ڈر اور خوف تھا کہ جس نے جلیان والے باغ امرتسر میں ہجوم پر گولیاں چلا کر ان کا قتل عام کیا۔
Published: undefined
اب یہاں ایک اہم سوال ہے کہ ہجوم اکٹھا ہوتا ہے۔ تصادم کی وجہ سے لوگ بھی مارے جاتے ہیں، لیکن کیا ہجوم کی ان قربانیوں کی وجہ سے کوئی اہم سیاسی تبدیلی آ سکتی ہے یا اس کا فائدہ لیڈر شپ اٹھاتی ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے؟ کیونکہ جب ہجوم منتشر ہو جاتا ہے تو پھر وہ پہلے کی طرح بے بس ہو جاتا ہے۔ ہجوم کی سیاست کے اس پہلو کو ہم امریکہ کی سوسائٹی میں دیکھتے ہیں۔ جہاں افریقوں اور سفید فام امریکیوں میں نسلی تعصبات پوری طرح سے موجود ہیں۔ جب پولیس افریقی باشندوں کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھاتی ہے تو افریقوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ مل کر ایک ہجوم کی شکل اختیار کر لیں اور توڑ پھوڑ اور ہنگامہ کرکے اپنی طاقت کا اظہار کریں، لیکن ان کے بنیادی مسائل وہی رہتے ہیں اور ان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوتی ہیں، ان کا ازالہ نہیں ہوتا ہے۔
Published: undefined
لہٰذا ریاست اور ہجوم کے درمیان جو تلخی اور عداوت ہے۔ اس کا خاتمہ اسی وقت ہو گا جب ریاست عام لوگوں کو ان کے حقوق دے کر ان کو ریاست کا ایک حصہ بنائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز