گزشتہ ہفتے جب امریکی کمپنی ’گویا فوڈز‘ کے سی ای او روبرٹ یوناؤ نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کی ضرورت سے زیادہ تعریف کر دی تو امریکا میں مقیم ہسپانک برادری میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس کمپنی کے ہسپانک صارفین اب گویا فوڈز کی تمام تر مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Published: undefined
یوناؤ نے صدر ٹرمپ کے ایک ’عظیم لیڈر‘ قرار دیا تھا۔ ان کے بقول، ’’ہم بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ ہمیں صدر ٹرمپ جیسا لیڈر ملا ہے جو کہ ایک بلڈر ہے۔‘‘ گویا فوڈز کے مالک نے مزید کہا کہ ان کے دادا بھی اس ملک میں تعمیر، ترقی اور خوشحالی کے لیے آئے تھے۔ ان کے دادا ایک ہسپانوی تارکین وطن تھے اور انہوں نے سن 1936 میں گویا فوڈز کمپنی کا آغاز کیا تھا۔
Published: undefined
امریکا کے بہت سارے گھرانوں، خاص طور پر تارکین وطن ہسپانک کمیونٹی کے باورچی خانوں میں زیتون کا تیل، مصالحہ دار مچھلی یا مرغی کے گوشت جیسی گویا فوڈز کی 2500 سے زائد مختلف مصنوعات استعمال کی جاتی ہیں۔ ناقدین کے مطابق وائٹ ہاؤس میں مدعو کیے جانے پر صدر ٹرمپ کی بے جا تعریف، رابرٹ یوناؤکی کمپنی کو مہنگی پڑ گئی۔
Published: undefined
Published: undefined
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے سے لاطینی امریکا سے اچانک لگاؤ کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکا میں صدارتی انتخابات میں چار مہینے باقی رہ گئے ہیں اور وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انہیں ایریزونا اور فلوریڈا جیسی کلیدی ریاستوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہسپانک برادری کے ووٹوں کی اشد ضرورت ہو گی۔
Published: undefined
ٹرمپ نے اپنے میکسیکن ہم منصب آندریس مینوئل لوپیز اوبراڈور سے ملاقات کے دوران ہسپانک برادری کے لیے تعلیم اور روزگار تک رسائی میں بہتری کے اقدامات کا بھی اعلان کیا۔ ٹرمپ نے صدارتی حکم نامے پر دستخط کرنے سے قبل کہا کہ میکسیکو کے صدر ’ان کے دوست‘ ہیں۔ اوبراڈور نے ٹرمپ کی ’نرم دلی‘ کا شکریہ ادا کیا۔
Published: undefined
صدر ٹرمپ کی جانب سے میکسیکن صدر کی آمد کے موقع پر گویا فوڈز کے سی ای او رابرٹ یوناؤ کو وہائٹ ہاؤس میں مدعو کیا گیا تھا۔
Published: undefined
Published: undefined
واضح رہے ماضی میں صدر ٹرمپ نے امریکا میں مقیم میکسیکن تارکین وطن کو ’جرائم پیشہ اور ریپسٹ‘ جیسے القاب سے نوازا تھا۔ صدر ٹرمپ کی پہلی انتخابی مہم زیادہ تر میکسیکن باشندوں کو امریکا میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے دیوار تعمیر کرنے کے نعروں پر منحصر تھی۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے احکامات کے نتیجے میں امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے لاطینی امریکی والدین کو اپنے بچوں سے کئی ہفتوں تک علیحدہ کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
لہٰذا ہسپانک برادری کی جانب سے سوشل میڈیا پر گویا فوڈز کی مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کے لیے فوری طور پر مطالبہ شروع ہو گیا اور جلد ہی BoycottGoya# ایک ٹرینڈ بن گیا۔ اس مہم نے حریف سیاسی جماعت کی بھی حمایت حاصل کر لی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن جولیان کاسترو نے ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’’یوناؤ ایک ایسے صدر کی تعریف کر رہے ہیں جو سیاسی مقاصد کے لیے ہسپانک برادری کو نشانہ بناتے ہیں۔ امریکیوں کو اپنی مصنوعات خریدنے سے پہلے دو مرتبہ سوچنا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
گویا فوڈز کے سی ای او نے اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے فوکس نیوز کو بتایا، ’’میں یہ بات کہنے پر معذرت نہیں کر رہا کیونکہ آپ صدارتی دعوت نامے کے جواب میں اپنی مصروفیت کی وجہ سے شرکت سے معذرت نہیں کرتے۔ میں نے نہ تو اوباما سے ملاقات سے انکار کیا اور نہ ہی صدر ٹرمپ سے۔‘‘
Published: undefined
ادھر صدر ٹرمپ کے فرزند ٹرمپ جونیئر نے بھی گویا فوڈز کا دفاع کرتے ہوئے ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’بائیں بازو کا ہجوم اب امریکا کی سب سے بڑی ہسپانک باشندوں کی کمپنیوں میں سے ایک کو ختم کرنا چاہتا ہے۔‘‘
Published: undefined
امریکا میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران گویا فوڈز کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا تھا۔ اس کمپنی نے غیر سرکاری تنظیموں کو ستائیس لاکھ سے زائد غریب افراد کے لیے مفت کھانے، بیس ہزار چہرے کے ماسک، چنے کے دس لاکھ ڈبے اور پانچ لاکھ کلو کی دیگر مصنوعات کے عطیات دینے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ کے لیے چند تعریفی کلمات نے تعلقات عامہ کو بہتر بنانے کی ان تمام فلاحی کاموں کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined