جنوبی کوریا اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے آبادی میں کمی کے مسئلے سے لڑائی میں مصروف ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز میں جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوبی کوریا یہ لڑائی ہار رہا ہے۔
Published: undefined
52 ملین آبادی کے ملک جنوبی کوریا میں رواں برس 0.18 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جنوبی کوریا میں نفوس شماری کے آغاز سے اب تک اس انداز کے رجحان کا یہ پہلا موقع ہے۔ شماریات اور نفوس شماری کے نگران حکومتی ادارے کے مطابق یہ رجحان جاری رہا تو ایک صدی بعد ملکی آبادی فقط بارہ ملین تک پہنچ جائے گی، جو موجودہ آبادی کا 23 فیصد بنتی ہے۔ اسٹیٹِسٹک کوریا کے مطابق اس وقت ملکی آبادی کا میڈین یا نقطہ وسط 43 ہے، تاہم سن 2070 میں یہ 62 ہو جائے گا۔
Published: undefined
یہ اعدادوشمار لیکن اس ملک کے لیے حیران کن نہیں ہیں کیوں کہ جنوبی کوریا میں پہلے ہی ملکی آبادی میں کمی اور ضمنی چیلنجز کے حوالے سے آگہی موجود ہے۔ ایک طرف یہ ملک معمر افراد کی تعداد میں اضافے کا شکار ہے تو دوسری جانب یہاں بچوں کی شرح پیدائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا کو مسلسل اپنے صحت اور معمر افراد کی دیکھ بھال کے شعبے میں زیادہ سرمایہ صرف کرنا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
کئی سابقہ حکومتیں آبادی میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں کر چکی ہیں اور گزشتہ ایک دہائی میں اس سلسلے میں قریب ایک سو اسی ارب ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں، تاہم نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ حکومت جوڑوں کو بچوں کی پیدائش پر زیادہ مراعات دے رہی ہے، تاہم ان مراعات کا شرح پیدائش میں اضافے کے اعتبار سے بہت کم اثر سامنے آیا ہے۔
Published: undefined
انٹرنیشنل کرسچین یونیورسٹی ٹوکیو کی اسکالر اہیو ہے گیونگ کے مطابق، ''یہ مسئلہ طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے اور حالیہ کچھ برسوں خصوصاﹰ وبائی دور میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ان کا تاہم کہنا تھا، '' اس میں وجہ اسٹرکچرل ہے، جس نے کوریائی معاشرے کو متاثر کیا ہے، جب کہ اس کی کئی پرتیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ والدین میں بچوں کو ہر حال میں کامیاب دیکھنا سب سے بڑی وجہ ہے۔‘‘
Published: undefined
جنوبی کوریا کی تیز رفتاری اقتصادی ترقی اور نمو نے آج کے بچوں کے لیے غیرمعمولی مواقع پیدا کیے ہیں، وہ مواقع جن کا ان بچوں گرینڈ پرینٹس سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اسی صورت حال میں یہ خیال زور پکڑ گیا ہے کہ بہتر ملازمت اور خوش و خرم زندگی کے لیے تعلیم نہایت ضروری ہے۔ اہیو ہے گیونگ کہتی ہیں، ''والدین اپنے بچوں کو انتہائی اعلیٰ تعلیم دلوانے میں اپنی توانائی خرچ کرتے ہیں اور حتیٰ کہ اپنی سالانہ آمدن کا پچاس فیصد تک خرچ کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان پر بھاری دباؤ ہوتا ہے اور ایسے میں وہ صرف ایک ہی بچے کا بوجھ برداشت کر پاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined