سماج

وصال سے وصل تک

مرنے پر ساز اور گانے بجانا سندھ میں ایک روایت بھی بنتی جا رہی ہے۔ اسے صوفی ازم کا ورثہ بھی کہا جاتا ہے، جو عرس کی شکل میں موجود ہے۔ سندھ میں لوگ مرنے والے کو خوشی سے الوداع کرنا چاہتے ہیں۔

وصال سے وصل تک
وصال سے وصل تک 

لوگ جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے کچھ مقامی ساز بجاتے ہوئے کچھ دہنوں میں گا رہے تھے۔

سندھی سے ترجمہ شدہ:

"ہر دور میں، ہم لوٹیں گے: میرے پیارے، سندھو کے کنارے ملیں گے۔ جب اندھیرا گزر جائے گا، اس پورے چاند کی رات ہم ملیں گے۔ "

Published: undefined

یہ جنازہ جمن دربدر کا تھا اور جو اشعار جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے اونچی آواز میں گیت کی شکل میں دہرائے جا رہتے تھے وہ جمن کی لکھی ہوئی شاعری تھی، جو اس نے وطن کی محبت میں لکھی تھی۔

Published: undefined

جمن کی محبت کا سفر بہت چھوٹی عمر سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ جب ایک چائے خانے پر کام کرتے ہوئے وہ ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ لڑکی کا تعلق پنجاب سے تھا اور جب وہ پنجاب واپس لوٹی تو چھوٹے جمن بھی پیچھے پیچھے نکل پڑے اور جب جیپ سے پیسے ختم ہوئے تو آگے کا سفر پیدل ہی تہہ کیا۔ جب ہوش میں آئے تو پتہ چلا کہ داتا دربار پر بھوک اور پیاس کی وجہ سے تین دن تک بیہوشی کی حالت میں تھے۔

Published: undefined

جمن کی محبت کی شروعات ہی دربدری سے ہوئی اور یہ دربدری وطن کی محبت میں مبتلا ہوگئی۔ جمن ایک مختلف شاعر تھے، جن کے اشعار سے وطن کے پسے ہوئے طبقہ کے لیے تھے۔ جمن کا تعلق عمرکوٹ سے تھا اور وہ شاعری کے ساتھ کسانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے ایک کارآمد کارکن بھی تھے۔

Published: undefined

یہ تو تھا جمن کا چھوٹا سا تعارف لیکن آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ مرنے پر کون ساز اور گانے بجاتا ہے۔ تو میں آپ کو بتاتی چلوں کہ یہ صوفی ازم کا ورثہ ہے، جو عرس کی شکل میں موجود ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ سندھ میں ایک روایت بھی بنتی جا رہی ہے کہ انسان کے مرنے پر اسے خوشی سے الوداع کرنا چاہیے اور عرس کا بھی مطلب ہے کہ وصال کے دن کو وصل کی رات سے جوڑنا اور اس مرنے کے دن کو تہوار کی طرح منانا۔ دراصل عرس عربی زبان کا لفظ ہے جس کی معنی ہے شادی کی رات۔

Published: undefined

صوفی ازم کے مطابق جب ایک انسان مرتا ہے تو وہ اپنے محبوب سے وصل کرتا ہے اور وہ محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے، یہ عشق والی راہ ہے جس میں ہار بھی جیت بن جاتی ہے اور یہ تہوار اس پہلی زیارت کا جشن ہوتا ہے۔ تو صوفی کہتے ہیں کہ کسی کے مرنے پر دکھ نہیں بلکہ خوشی منائی جانی چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک مبارک دن ہوتا ہے، جس دن دو محبت کرنے والوں کا ملن ہوتا ہے۔

Published: undefined

دنیا میں عرس کا تہوار تین جگوں پر پایا جاتا ہے ترکی، ایران اور برصغیر۔ ایران میں مزاروں کی ثقافت نظر آتی ہے اور ایک حوالے کے مطابق کسی وقت میں وہاں بھی عرس جیسا تہوار منایا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ وہاں ختم ہو گیا ہے، اس کی وجوہات کیا رہیں یہ ایک لمبی بحث ہے۔ ترکی میں مولانا رومی کی برسی کے دن کو شابیا عروس کہتے ہیں اور انگریزی میں یہThe wedding night of Rumi سے مشہور ہے۔

Published: undefined

اگر برصغیر کی بات کریں تو دہلی میں واقع، حضرت نظام الدین دنیا کے مشہور صوفی بزرگوں میں سے ایک ہیں۔ نظام الدین اولیاء کی برسی پر دہلی میں ان کی درگاہ پر بہت بڑا عرس ہوتا ہے۔ اگر سندھ کی بات کریں تو شاہ عبداللطیف بھٹائی( جو سندھ کے بہت بڑے صوفی شاعر ہیں) کے جنم دن پر خوشی اور دھمال نہیں ہوتی بلکہ ان کے وفات کے دن پر عرس ہوتا ہے اور اسی دن پر دھمال اور راگ کے شکل میں ان کی شاعری کو پیش کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

ویسےصوفی کون ہوتے ہیں؟

صوفی "ہمہ اوست" کے فلسفے کو ماننے والے ہوتے ہیں۔ ہمہ اوست کیا ہے؟ ہمہ اوست ایک پختہ خیال ہے، جو کل اور جز کو ایک ہی رنگ میں دیکھتا ہے۔ ہمہ اوست کے مطابق کل سے ہی جز کی ابتدا ہوئی ہے اور اس دنیا کی ہر چیز میں کل ہے۔ کل خود کہتا ہے"جہاں دیکھوں میں ہی میں ہوں"۔ یہاں کل سے مطلب خدا ہے۔ تو صوفی ازم کا یہ عقیدہ ہے کہ الہٰی کائنات کے ہر ذرہ میں ہے اور وہی ہے جو ہر حصے کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے اور جگہ اور وقت سے باہر بھی پھیلا ہوا ہے۔

Published: undefined

سندھ اور سندھو سے جوڑی ہوئی بہت سی ایسی روایتیں ہیں، جو صوفی ازم کا ورثہ ہیں اور سندھ ان روایات کو کھلے دل سے قبول کرتا آیا ہے اور امید ہے کہ کرتا رہے گا۔ اس دن قافلے نے جمن کی محبوب سے زیارت کی خوشی میں موسیقی بجائی یا اس کی زندگی کو سلیبریٹ کیا۔ اس کا احوال انہیں کے دلوں کو پتہ ہے۔

Published: undefined

سندھ کی نوجوان نسل جمن کو ماما جمن کے نام سے جانتی ہے۔ ماما جمن کے گیت کی کچھ سطریں:

چاہے یورپ ہو یا لبنان جہاں جہاں مارا گیا انسان،

انہی انسانوں کے خون اور ارمانوں کے ساتھ ہم ملیں گے

اسی شورش کے مارے ہم سندھو کنارے ملیں گے

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined