سماج

بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا اعلان کیا جائے، سنتوں کا مطالبہ

ہندو مذہبی رہنماؤں نے عام ہندوؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ دانستہ طور پر بھارت کو 'ہندو راشٹر‘ یعنی ہندو ریاست  لکھنا اور کہنا شروع کر دیں، تو پھر حکومت بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس 

ان سنتوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ہندوؤں کا 'احترام‘ نہ کرنے والے مسلمانوں کو پاکستان بھیج دینا چاہیے۔ دسمبر میں ہردوار میں منعقدہ متنازعہ دھرم سنسد (مذہبی پارلیمنٹ) کے بعد ہفتے کے روز اترپردیش کے مذہبی شہر پریاگ راج (سابقہ الہ آباد) میں دوسرا دھرم سنسد منعقد ہوا، جس میں پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں۔ اس اجلاس میں ہندوؤں کے مذہبی لحاظ سے انتہائی محترم سمجھے جانے والے متعدد 'مہامنڈلیشوروں‘ سمیت تقریباً 400 سرکردہ سنت شریک ہوئے۔

Published: undefined

ہردوار دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی سمیت متعدد متنازعہ بیانات کی ملک کے اندر اور بیرون ملک سے بھی سخت مذمت کی گئی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ میں بھی اس حوالے سے ایک کیس زیر التوا ہے۔ سپریم کورٹ سے ایسے دھرم سنسد کے انعقاد کی اجازت نہ دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس لیے منتظمین نے قانونی گرفت سے بچنے کی خاطر دھرم سنسد کے بجائے پریاگ راج میں منعقدہ اجلاس کو 'سنت سمیلن‘ کا نام دیا۔

Published: undefined

سنت سمیلن میں کیا ہوا؟

دریائے گنگا، جمنا اور تصوراتی سرسوتی کے سنگم پر ہندو مذہبی رہنما جگت گرو سوامی نریندرانند سرسوتی کی صدارت میں منعقدہ سنت سمیلن میں منظور کردہ قراردادمیں کہا گیا کہ ہو سکتا ہے ملکی حکومت بھارت کو 'ہندو راشٹر‘ کہنے کا اعلان نہ کرے، تاہم تمام ہندوؤں کو بھارت کو ہندو راشٹر لکھنا اور بولنا شروع کردینا چاہیے۔ ''ایسا کرنے سے حکومت خود بخود اس ملک کے ہندو راشٹر ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔‘‘

Published: undefined

ایک دوسری قرارداد میں تبدیلی مذہب کو ملک سے غداری اور ایسا کرنے میں ملوث پائے جانے والوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ہندو مذہبی رہنما پربودھانند نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو مسلمان ہندوؤ ں کا 'احترام‘ نہیں کرتے، انہیں پاکستان اور بنگلہ دیش بھیج دینا چاہیے۔

Published: undefined

پربودھانند نے ہردوار کے دھرم سنسد میں بھی انتہائی اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے 'مسلمانوں کے مسئلے کے حتمی حل‘ کے لیے روہنگیا باشندوں کے قتل عام جیسی کارروائی کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے بھارتی پولیس، فوج اور سیاست دانوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے متحد ہوجانے کی اپیل بھی کی تھی۔ سوامی نریندرانند سرسوتی نے ہندوؤں کو دیوی دیوتاؤں سے سبق لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ہتھیار اٹھا لیں۔

Published: undefined

مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید

پریاگ راج دھرم سنسد پر بھی ملک کے مختلف حلقوں نے سخت تنقید کی ہے۔ رکن پارلیمان اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے سنت سمیلن میں اشتعال انگیز تقریروں پرسیکولر جماعتوں کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''پریاگ راج دھرم سنسد میں دارالعلوم دیوبند اور بریلی کے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور وہاں موجود لوگوں نے انتہائی ذلت آمیز زبان استعمال کی۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا، ''کیا حکومت اس کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی؟ کیا وزیر اعظم، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کچھ کہیں گے؟ کیا یہ ان کی بزدلی ہے یا انہوں نے کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟‘‘

Published: undefined

خیال رہے کہ ہردوار دھرم سنسد کے حوالے سے بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان پروفیسر راکیش سنہا نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے لوگوں کی باتوں پر دھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

Published: undefined

شدت پسند ہندو رہنماؤں کا موازنہ بھگت سنگھ سے

ہردوار دھرم سنسد پر ہر طرف سے نکتہ چینی کے بعد حکومت نے چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ پریاگ راج دھرم سنسد میں منظور کردہ ایک قرارداد میں ان تمام افراد کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ ان میں اسلام ترک کر کے ہندو مت اپنا لینے والے وسیم رضوی عرف جتندر تیاگی بھی شامل ہیں۔

Published: undefined

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان افراد کو 'جانباز‘ قرار دیتے ہوئے ان کا موازنہ بھارت کی جنگ آزادی کی ایک اہم شخصیت بھگت سنگھ، جو خود کو سوشلسٹ اور ملحد کہتے تھے، سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ''اگر حکومت ان کی رہائی میں تاخیر کرتی ہے، تو ہم بھگت سنگھ کے کارنامے کو دہرانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

Published: undefined

بھگت سنگھ نے سن 1929میں ایک برطانوی قانون کی مخالفت میں دہلی کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں بم پھینک دیا تھا۔ سنت سمیلن کے شرکاء نے ہندو خواتین سے پانچ پانچ بچے پیدا کرنے کی بھی اپیل کی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined