خودکشی ایسا فعل ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثر لوگ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر سوچتے ضرور ہیں لیکن پھر کچھ ایسی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جو ہمیں زندگی کی طرف واپس کھینچ لاتی ہیں۔
Published: undefined
ماہرین نفسیات کے مطابق ایسا شخص یا تو ضرورت سےزیادہ پرجوش نظر آنے لگتا ہے یا تو سخت مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کی بہت سی چیزوں کو سمیٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کئی دفعہ ہم ڈیپریشن زدہ شخص کی جنونی اور زندگی سے بغاوت والی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔
Published: undefined
ہم اس کی مایوس و افسردہ باتوں کو جھٹک کر کہہ دیتے ہیں کہ ''لو جی! یہ کیا بات ہوئی، جو تم سوچ رہے ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ زندگی کی مثبت تصویر دیکھو، فلاں چیز پر شکر بجا لاؤ‘‘۔ دراصل ہم اپنی نظر سے اس شخص کو دیکھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہمدردی کا فلسفہ یہ ہے کہ متاثرہ شخص کی دنیا کو اُس کی نظر سے دیکھا جائے۔
Published: undefined
ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہڈپریشن اور خودکشی کی سب سے بڑی وجہ تنہائی ہے۔ اگر ہم آج کے دور کو دیکھیں تو نوجوان سماجی میل جول سے زیادہ سوشل میڈیا کی کارستانی کا شکار ہیں۔ ہم اس خام خیالی میں ہیں کہ سوشل میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔ درحقیقت یہ دنیا ہمیں تنہا کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جتنا زیادہ طبقات، رہن سہن، طرزِ زندگی کا فرق نظر آتا ہے اتنا ہی لوگ زیادہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
Published: undefined
سیدھی سی بات ہے کہ اگر کسی کے رشتہ داروں یا دوستوں میں کوئی آئے دن غیر ممالک کی سیر و تفریح، مہنگی ہوٹلنگ اور ان کی لی گئی سیلفیاں شیئر کر رہا ہو تو وہ شخص جو کہ اتنی طاقت و استطاعت نہیں رکھتا، اس کے اندر کچھ نہ کچھ حد تک احساسِ کمتری پیدا ہو گا۔ وہ اس سماجی تفریق کو اپنے ذہن پر طاری کرے گا اور یوں اس کے لاشعور میں کہیں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ دنیا تو ان لوگوں کی ہے، میں تو بے کار ہوں۔
Published: undefined
ایسا متاثرہ شخص تنہا ہو جائے گا اور لوگوں سے سلام اور ہیلو ہائے سے گریز ہی کرے گا۔ یہی تنہائی انسان کو دیمک کی مانند اندر ہی اندر کھاتی رہتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوشل ایپس کرنٹ کی مانند ہیں کیونکہ بے جا استعمال کرنے والا حواس باختہ ہو کر الیکڑانک گیجٹ کے ساتھ چپک جاتا ہے۔ اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے اسے پرواہ نہیں ہوتی۔ یہی لاپرواہی اسے اپنے دوست احباب، فیملی اور سوشل سرکل سے تنہا کرنے کی وجوہات میں سے بنیادی وجہ ہے۔
Published: undefined
ہر وقت آن لائن رہنے کے خواہش مند نوجوانوں کو اکثر سماجی و خاندانی رشتوں کے حوالے سے مشکلات درپیش رہتی ہیں۔ موڈ سوئنگ کے باعث پل میں تولا پل میں ماشہ کی تشریح و تعبیر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ جب لوگ ان کے اس عجیب رویے کا تمسخر اڑاتے ہیں تو ایسے نفسیاتی مریض پھر تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
Published: undefined
تنہائی کے بارے میں 'سوشل میڈیا متاثرین لاء سینٹر‘ کی ریسرچ رپورٹ، ڈاکٹر بیانکا فاکس کے تحقیقی مقالہ اور بی بی سی تنہائی سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 16سے 24 سال کی عمر کے نوجوان زیادہ تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ تنہائی جب بیماری کی حد تک بڑھ جاتی ہے تو ذہن و جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں بھولنے کا مرض اور دیگر منفی رویے سامنے آتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہا جائے، اپنی تنہائی کو سوشل میڈیا پر بانٹنے کی بجائے اصل زندگی میں کسی کے ساتھ شیئر کیا جائے۔
Published: undefined
ایک ہسپتال میں دل کی سرجری یونٹ کے بارے ایک خوبصورت جملہ لکھا ہوا تھا کہ ''اگر دل کھول لیتے یاروں کے ساتھ تو آج کھولنا نہ پڑتا اوزاروں کے ساتھ‘‘۔ یقینا دکھ بانٹنے سے ہلکا ہو جاتا ہے۔ جوشخص افسردگی و تنہائی کا شکار رہتا ہے اسے ''واکنگ وونڈڈ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی ایسا فوجی جو جنگ میں زخمی ہوا ہے لیکن اپنے پاؤں پر کھڑا ہے۔
Published: undefined
اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی و استحکام میں نوجوان طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر وہ ذہنی خلفشار، انتشار یا انزائٹی کا شکار رہے گا تو اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا پائے گا۔ اس سنگین معاشرتی مسئلے کے حل کے لئے ہم سب کو اپنی زندگی گزارنے کے طریقوں اور سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined