لاہور جو ماضیِ قریب تک اپنے کھانوں، فلم انڈسٹری اور مغلئی انگریز آرکیٹکچر کے سبب جانا جاتا تھا، اب اس کا تعارف سموگ ہے۔ زندہ دلانِ لاہور اگر تھے تو کبھی تھے۔ اب تو کھانستے لاہوریوں کا ہجوم پھیلا ہوا ہے۔ اس وقت سموگ آسمان تا پنجاب اسمبلی تہہ در تہہ چھوا جا سکتا ہے اور اپنے اندر اتارا بھی جا سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے ہفتے میں تین دن اور نجی کاروبار دو دن بند کرنا پڑ گیا ہے۔
Published: undefined
لاہور تو محض اپنی تاریخی مرکزیت کے سبب ایک سموگی استعارہ ہے جو دراصل گجرات تا ملتان پھیلی صنعتی پٹی کا تعارف بن گیا ہے۔ سموگ پیدا کرنے کے اسباب جی ٹی روڈ کے دونوں طرف بے مہار ٹریفک، غلام مزدوروں کی آہوں کو موٹے سے سیاہ دھوئیں کی شکل میں اگلنے والے اینٹوں کے بھٹوں، منافع اور مزید منافع کے نشے میں چور صنعتی چمنیوں اور ان چمنیوں کے پیچھے بچھے ہوئے کھیتوں کے سینے میں پیوست ڈنٹھلوں کو ہاتھ اور مشین سے نکالنے کی مشقت سے بچنے کے لیے آگ لگا کر زمین جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنے کے طریقے اور کچرے کے ڈھیروں کو آگ لگانے کے عمل نے وہ آلودہ خنجر تیار کر دیا جو پچھلے پانچ برس سے پنجاب کا مرکزی ریجن اپنے سینے میں باقاعدگی سے بھونک رہا ہے۔
Published: undefined
اس کے بعد سالانہ روایتی سیاپا ہوتا ہے، رپورٹیں طلب ہوتی ہیں، باز پرس کے جدی پشتے مکالمے پھر سے دہرائے جائے ہیں اور پھر اگلے برس کے تازہ سموگی وار تک اینٹوں کے بھٹے اور چمنیاں روایتی اطمینان سے دھواں داری کرتے ہیں۔
Published: undefined
کسان نئی فصل کاٹ کر اگلی فصل تک نشچنت ہو جاتا ہے۔ خاکروب اسی پرانے یقین کے ساتھ جمع شدہ کچرے کے ڈھیروں کو آگ لگاتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ دھواں تو دھواں ہے۔ ذرا سی دیر میں غائب ہو جائے گا۔
Published: undefined
یہ سب کچھ یقینِ محکم اور عملِ پیہم کے جذبے کے ساتھ جاری ہے۔ یقینِ محکم یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے نپٹنے کے لیے جتنے بھی ایکٹ، زیلی قوانین اور ضوابط تشکیل پا جائیں۔ ریاستی احکامات پر عمل درآمد کے لئے کتنے بھی معائنہ کار بھرتی کر لیے جائیں۔ ان سب کی دھجیاں نوٹوں بھری پھونک سے جب چاہیں اڑائی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ آلودگی سازی کو عملِ پیہم کے جذبے کے ساتھ اور ترقی دی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
اس ماحول کی دیکھا دیکھی آفات بھی اتنی دیدہ دلیر ہو چکی ہیں کہ انہوں نے اپنا سالانہ کیلنڈر خود تشکیل دے لیا ہے۔ مثلاً موسمِ گرما سے اکتوبر تک ڈینگی لاہور اور گریٹر لاہور پر راج کرے گا۔ اکتوبر تا فروری ڈینگی کو سموگ کے لیے جگہ چھوڑنا پڑے گی۔ اور مارچ سے مون سون کے عروج تک آلودہ پانی اور اس کے ہم رکاب رنگارنگ بیماریوں کا جلوس ایک دروازے سے فاتحانہ داخل ہو گا اور حسبِ منشا قیام کے بعد دوسرے شہری دروازے سے بخیریت و بلا مزاحمت گزر جائے گا۔
Published: undefined
کسی کو کسی بھی طرح کے زیاں کا ہرگز اندیشہ نہیں۔ کارخانہ دار بھی خوش، بھٹہ مالک بھی خوش، پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی مسلسل مانگ برقرار رہنے پر کارساز بھی خوش، کسان بھی خوش، بڑی بڑی جیبوں والا لباس پہننے والے انڈسٹریل اور لیبر معائنہ کار بھی خوش، قوانین ساز ادارے بھی قانون کی منظوری دیتے ساتپ اپنی زمہ داریوں سے سبک دوشی پر خوش اور آلودگی و بیماریوں کے پھلنے پھولنے سے طبی ماہرین اور دوا ساز کمپنیاں اور صحت کا نجی شعبہ بھی خوش۔
Published: undefined
حالانکہ یہ سب ایک برس میں ٹھیک ہو سکتا ہے اگر منتخب بلدیاتی اداروں کو سانس لینے کا موقع دے کر انہیں ضروریات اور منصوبہ سازی کے لئے وافر بجٹ اور ضروری اختیارات و قوتِ نافذہ سے مسلح کر کے چند برس کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔ بھلا کون سا بلدیاتی کونسلر ہو گا جو اپنے محلے سے دوبارہ منتخب نہ ہونا چاہے گا اور اس کے لیے وہ تھوڑے بہت ہاتھ پاؤں نہیں مارے گا اور اردگرد کی صفائی ستھرائی کا دھیان نہیں رکھے گا۔
Published: undefined
دو تین برس پہلے تک سرکاری بابو سموگ کو بھارتی سازش قرار دے کر جان چھڑا لیتے تھے۔ یعنی بھارتی پنجاب میں جب کسان زمین کی صفائی کے لیے کھیتوں کو آگ لگاتے ہیں تو پھر یہ دھواں لاہور تک شرقاً غرباً پھیل جاتا ہے۔
Published: undefined
تاثر یہ دیا جاتا تھا گویا ہوا کا رخ ہمیشہ بھارتی پنجاب سے پاکستانی پنجاب کی طرف ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ کامن سینس کہتی ہے کہ ہوا کبھی یک سمتی نہیں ہوتی۔ صبح اس کا رخ کچھ اور اور شام کو کچھ اور ہوتا ہے۔ اور ممکن ہی نہیں کہ ہوا کا رخ دیکھ کے چلنے والے سیاست بازوں اور نوکر شاہوں کو یہ راز معلوم نہ ہو۔
Published: undefined
اچھا اگر ہوا کے یکطرفہ رخ کی بابو گیر تھیوری مان بھی لی جائے تو پھر یہ کون بتائے گا کہ دو ہزار اٹھارہ سے قبل سموگ کا مسئلہ اتنا سنگین کیوں نہیں تھا کہ سانس ہی جواب دینے لگے۔ ہوا تو تب بھی بھارت کی جانب سے ہی پاکستان میں آتی ہو گی۔
Published: undefined
دو ہزار اٹھارہ میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور دسویں درجے پر تھا۔ صرف چار برس کی کڑی غفلت کے نتیجے میں لاہور آلودگی کی عالمی فہرست میں آج اول نمبر پر سینہ تانے کھڑا ہے۔
Published: undefined
اکبر کو لاہور بہت پسند تھا۔ اکبر کے دور میں فضائی آلودگی کا یہ عالم ہوتا تو انار کلی کے بجائے حاکمِ لاہور مع عمال و عیال شاہی قلعے کی فصیل میں چنا جا چکا ہوتا۔ تب انار کلی سموگ میں گم ہو کے کہیں سے کہیں پہنچ کے دریا پار قبائلی علاقے میں پناہ لے چکی ہوتی۔
Published: undefined
کے آصف پھر بھی لگ بھگ چار سو برس بعد مغلِ اعظم بنانے سے باز نہ آتے مگر کہانی رومانی کے بجائے ماحولیاتی ہوتی۔ اور دیسی اسکرین پر پٹنے کے باوجود بھی کئی بین الاقوامی فلم ایوارڈز کی مستحق قرار پاتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز