ڈی ڈبلیو: انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق خواتین کے حوالے سے بھارت کا شمار دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں ہوتا ہے۔آپ کی نظر میں اس کی وجوہات کیا ہیں؟
Published: undefined
واسو پرملانی: اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک پدرسری نظام کی گہری جڑیں ہیں، نظام انصاف کچھوے کی طرح سست ہے، کمزور پولیس اور سزا کی ناقص شرح ہے۔ معاشرتی رویے اور ایک غیر ذمے دار عدالتی نظام سے پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ میرے خیال سے اس ملک میں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو:کیا اس کا تعلق طاقتور سیاسی طبقات سے بھی ہے؟
Published: undefined
واسو پرملانی: ہمارے ہاں ایک ایسا زہریلا پدرسری نظام ہے، جہاں سیاسی طبقہ ازدواجی ریپ کو جرم سمجھنے سے بھی گریزاں ہے۔ بھارت کے قانونی اور سیاسی نظام کی رہنمائی ایسے افراد کرتے ہیں، جو پدرسری اقدار کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ہندوستان کی موجودہ قیادت کے بارے میں سچ ہے۔ اس کے نتیجے میں عوامی اور قانونی بے حسی کا ایک مجموعہ پیدا ہوا ہے۔
Published: undefined
میرے خیال میں بچوں کی ذہن سازی معاشرہ، والدین، ان کے ساتھی اور اساتذہ کرتے ہیں۔ اگر بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ جنسی زیادتی ٹھیک ہے تو پھر یہ معاشرے میں معمول کی بات ہو گی۔ اگر آپ کو نربھایا کیس (سن دو ہزار بارہ میں نئی دہلی میں گینگ ریپ اور قتل) یاد ہو تو سب سے کم عمر ریپسٹ نے کہا تھا، ''مجھے کیوں پکڑا ہے، ہر کوئی یہی کر رہا ہے۔‘‘ کچھ ریپسٹ ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کیوں کہ ان کی نظر میں ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔ بحرحال اگر جنسی زیادتی کو ذات پات یا کاسٹ سسٹم میں بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو پھر یہ طاقت کا مسئلہ ہے۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو:نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کی سخت قوانین جنسی زیادتیوں کو روک سکتے ہیں۔
Published: undefined
واسو پرملانی: یہاں تک کہ قانونی تحفظ اور ریپ کی توسیع شدہ تعریف کے ساتھ بھی اس نظام پر سوالیہ نشان ہے، بھارت میں احتساب کی کمی ہے۔ بین الاقوامی احتجاج کے باوجود نربھایا کیس کو سات برس لگے ہیں۔ ابھی یہ کیس ہائی پروفائل تھا اور اسے جلد از جلد نمٹایا گیا ہے۔ ابھی 33 ملین کیس بیک اپ میں ہیں۔ کیس کئی کئی عشرے چلتے ہیں۔ نتیجتاﹰ پہلے سے ہی ٹوٹے ہوئے نظام انصاف پر سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔
Published: undefined
اگر آپ نظام میں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں تو حکومت کی تبدیلی ضروری ہے، قوانین میں، معاشرتی تانوں بانوں اور سوچنے کے انداز میں تبدیلی ضروری ہے۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے لیکن بھارت نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو:آپ جنسی زیادتی کی روک تھام کے ممکنہ طریقوں میں سے ایک کے طور پر ریپسٹ کے فوری علاج اور بحالی ذہن کی وکالت بھی کرتی ہیں۔ یہ کیسے کام کرتا ہے؟
Published: undefined
واسو پرملانی: بدسلوکی بچوں پر داغ ڈال دیتی ہے۔ وہ ایسی بدسلوکیوں کی وجہ سے وقار کے احساس کے بغیر بڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں احساس تحفظ یا وقار کا اندازہ ہی نہیں رہتا تو ان کے لیے بدسلوکی ایک نارمل چیز بن جاتی ہے۔
Published: undefined
بھارتی حکومت جنسی زیادتی کو نہیں روکتی، جنسی زیادتی کے بعد بس ایک پلاسٹر بطور مدد فراہم کر دیتی ہے۔ میں نے ممبئی کے کئی قاتلوں اور ریپسٹ کے ساتھ کام کیا ہے اور ان کے اذہان کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سمیٹک تھراپی ایسے مجرموں کی بحالی میں مدد دیتی ہے اور ریپسٹ دوبارہ کبھی ایسا جرم نہیں کرتے۔ لوگوں میں تبدیلی کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ انہیں سمجھا جائے اور جانا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined