2022ء کے آغاز سے لمپی اسکن ڈیزیز وائرس سندھ اور پنجاب کے متعدد اضلاع میں پھیل چکا ہے مگر اس کی شدت کراچی، ٹھٹہ اور ملحقہ علاقوں میں زیادہ ہے۔ یہ علاقے فی الوقت شدید گرمی کی لہر کی لپیٹ میں ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق گرم و مرطوب آب و ہوا میں لمپی اسکن ڈیزیز ایسی جگہوں پر بہت تیزی سے پھیلتی ہے، جہاں بڑی تعداد میں جانوروں کو ایک ہی جگہ پر باندھا جاتا ہے، جسے عموما "باڑا" کہا جاتا ہے۔
Published: undefined
محکمہ لائیو اسٹاک سندھ سے وابستہ ڈاکٹر ایس سولنکی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لمپی اسکن ڈیزیز وائرس کا ڈی این اے دو لڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس کا تعلق کیپری پوکس وائرس جین سے ہے۔ جینیاتی لحاظ سے شیپ پوکس اور گوٹ پوکس سے تعلق رکھنے والی وائرس کی یہ فیملی گھروں یا ڈیری فارمنگ کے لیے پالے جانے والے جانوروں کو متاثر کرتی ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر سولنگی کے مطابق لمپی اسکن ڈیزیز سے پاکستان میں گائے، بھینس اور بیل متاثر ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ صرف سندھ میں 36 ہزار سے زائد جانور اس وائرس کی لپیٹ میں آئے اور 428 اموات ہو چکی ہیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر ایس سولنکی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ وائرس جانوروں کے تھوک کے علاوہ ان کو کاٹنے یا ان پر چپک کر بیٹھنے والے مچھر اور مکھیوں کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا ہے۔ دنیا کے کئی خطوں میں لمپی اسکن وائرس کو "انڈیمک" قرار دیا جا چکا ہے۔ اس وائرس کے کراس بارڈر تیزی سے پھیلنے کی بڑی وجہ جانوروں اور اجناس کی ٹریڈنگ ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر سولنکی کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی خاص تحقیق سامنے نہیں آئی مگر غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان میں یہ وائرس کسی ہمسایہ ملک سے جانوروں کی ٹریڈنگ کی وجہ سے منتقل ہوا۔ اور پھر متاثرہ جانوروں کو کاٹنے والے مچھر اور مکھیوں کے ذریعے یہ کراچی سے اندرون سندھ اور پنجاب تک پھیلتا چلا گیا۔
Published: undefined
پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کراچی اور ملحقہ علاقوں میں فروری میں جب یہ وائرس پھیلا تو حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ متاثرہ علاقوں سے جانوروں کی آمدو رفت کو روکا جائے اور نئے خریدے جانے والے جانوروں کو کم از کم 15 دن تک دیگر جانوروں سے علیحدہ باندھا جائے، ''مگر ہمارے ہاں باڑوں میں اتنی جگہ ہی نہیں ہوتی، جس کے باعث وائرس تیزی سے پھیلا۔ جون سے شروع ہونے والے مون سون سیزن سے اس کے پھیلاؤ میں مزید شدت کا امکان ہے کیونکہ بارشوں کے بعد گندگی، مچھر اور مکھیوں کی بہتات ہوتی ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر ایس سولنکی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لمپی اسکن ڈیزیز کی علامات میں بخار، جانور کی ناک کا بہنا، تھوک یا رال بہنا، بھوک نہ لگنا، جسم پر بڑے بڑے نوڈز یا دانوں کا ابھرنا اور دودھ کی مقدار کم ہونا شامل ہیں،''اگر دانے پورے جسم پر پھیل جائیں تو تیزی سے وزن کم ہونے کے ساتھ جانور کی موت واقع ہو جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیری فارمنگ اور لائیو اسٹاک سے وابستہ افراد زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ اگرچہ سندھ میں تربیت یافتہ وٹرنٹی ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے مگر حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ڈیری فارمرز کو اس حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے۔
Published: undefined
سندھ بھر میں لمپی اسکن ڈیزیز وائرس وائرل ہوتے ہی پاکستان ڈرگ ریگولیرٹی اتھارٹی نے دو ویسکین منظور کر کے ترکی اور اردن سے تقریبا 4 لاکھ ویکسین درآمد کیں اور فوری طور پر متاثرہ جانوروں کی ویکسی نیشن کا آغاز کیا گیا۔ چونکہ بڑی تعداد میں ویکسین کی درآمد مہنگی ہے لہذا کوشش کی جارہی ہے کہ آغا خان لیبارٹریز اور دیگر تحقیقی اداروں کی مدد سے ویکسین پاکستان میں تیار کر لی جائے، جس میں کم از کم 8 ماہ لگیں گے۔
Published: undefined
فروری 2022ء میں لمپی اسکن ڈیزیز کے کیسز سامنے آتے ہی ہر طرف افواہوں کا بازار گرم تھا۔ کراچی اور ملحقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نےگائےکا دودھ ترک کر دیا تھا۔ جس کے بعد آغا خان یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ایفیکشن پری وینشن نے ایک الرٹ جاری کر کے یہ واضح کیا کہ لمپی اسکن وائرس انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا۔ حفاظتی اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے دودھ اور گوشت کو اچھی طرح ابال اور پکا کر استعمال کیا جانا ضروری ہے۔
Published: undefined
البتہ مصر کی ایک محققہ صائمہ احمد کمال کی تحقیق انسانوں میں لمپی وائرس کے کچھ کیسز کی نشاندہی کرتی ہے۔ صائمہ غزا اینیمل ہیلتھ ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہیں۔ ان کی تحقیق کی مطابق 2019ء میں جب مصر میں لمپی اسکن ڈیزیز کی وبا پھیلی تو غزا، الفییوم اور الشرقیہ صوبوں میں انسانوں میں بھی لمپی اسکن ڈیزیز کے متعدد کیسز نوٹ کیے گئے۔ ان میں اکثریت ڈیری فارمرز کی تھی، جو متاثرہ جانوروں کے ساتھ براہ راست تعلق میں تھے۔ ان ڈیری فارمرز کے جسم پر بڑے بڑے دانے اور پھوڑے نوٹ کیے گئے تھے۔
Published: undefined
طبی ماہرین کے مطابق حیوانات میں لمپی اسکن ڈیزیز کا پہلا کیس 1929ء میں زیمبیا میں سامنے آیا۔ جبکہ اس کی پہلی وبا 1988ء میں مصر میں پھیلی۔ افریقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد 2013ء میں یہ سعودی عرب، اردن، شام، عراق، اسرائیل، ترکی میں، 2015ء میں روس، آرمینیا اور دیگر ہمسایہ ممالک میں پھیلا۔ جبکہ ایشیا میں اس کے کیسز 2020ء سے سامنے آنا شروع ہوئے۔
Published: undefined
ورلڈ آرگنائزیشن فار اینیمل ہیلتھ اس وائرس کو اپنی ہائی الرٹ لسٹ میں شامل کر چکا ہے کیونکہ متعدد ممالک کی معیشت پر اس وبا کے انتہائی منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں فروری اور مارچ کے مہینوں میں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلائی گئیں جس سے ڈیری کی اشیاء اور گوشت کی فروخت سے وابستہ افراد کا کاروبار 70 سے 60 فیصد گھٹ گیا۔
Published: undefined
ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں جانوروں کے بیمار پڑنے اور ہلاکت سے ڈیری فارمرز ویسے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔ ویکسی نیشن کو جلد از جلد مکمل کرنے کے ساتھ کراس بارڈر جانوروں کی آمدورفت کو روکنا ضروری ہے۔ ورنہ اگلے چند ماہ میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، جس کا براہ راست اثر لائیو سٹاک کی صنعت پر پڑے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined