بلوچستان سنگلاخ پہاڑوں، ریتیلے میدانوں اور خوبصورت وادیوں کی سر زمین ہے، جو برطانوی راج سے بین الاقوامی محققین کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ 1974ء میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جاریج نے سبی اور ملحقہ علاقوں میں کھدائی کے دوران ایک قدیم تہذیب کے آثار دریافت کیے تھے، جسے ''مہر گڑھ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
Published: undefined
1984ء میں جاریج کو یہاں سے پہیے کی شکل کا 2 سینٹی میٹر قطر کا ایک تعویز ملا، جو تقریبا دو عشروں تک دنیا کی نظر سے پوشیدہ رہا۔ دنیا کو اس کے بارے میں نومبر 2016ء میں میتھیو تھاؤرے اور ان کی ٹیم کے شائع ہونے والے مقالے کے ذریعے ہی معلوم ہو سکا کہ یہ لوسٹ ویکس کاسٹ کی تکنیک سے تیار شدہ دنیا کی قدیم ترین شے ہے۔
Published: undefined
مہر گڑھ سے دریافت ہونے والا پہیے کی شکل کا یہ تعویز 2 ملی میٹر قطر کے ایک رنگ پر بنا ہوا ہے، جس کے ساتھ بہت چھوٹے چھوٹے 6 راڈز منسلک ہیں، جو ایک خاص مقام پر آپس میں مل کر تعویز کے درمیانی حصے کو سہارا دیتے ہیں۔ مزید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ تعویز جس تکنیک سے بنایا گیا اسے دور جدید میں لوسٹ ویکس کاسٹ یا انویسمینٹ کاسٹنگ کہا جاتا ہے۔ موم سے سانچہ بنانے کا یہ طریقہ زمانہ قدیم سے زیورات، آلات، گھریلو استعمال کی اشیاء وغیرہ بنانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور آج بھی ناسا جیسے ادارے خلا میں بھیجے جانے والے آلات اسی طرح تیار کر رہے ہیں۔
Published: undefined
2016ء میں نیچر کمیونیکشن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مصنف فرانسیسی ماہر طبیعات و آثار قدیمہ میتھیو تھاؤرے بتاتے ہیں کہ اس تکنیک کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ جو شے تیار کرنی ہو تو ہو بہو اس جیسا مٹی کا ایک برتن بنا کر پگھلی ہوئی موم اس میں ڈالی جاتی ہے۔ اس کے بعد برتن کو آگ پر پکایا جاتا ہے، یہاں تک کے موم پگھل جائے اور برتن ٹھوس شکل اختیار کر لے۔ اس کے بعد پگھلی ہوئی موم دوبارہ برتن میں ڈال کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور پھر برتن کو احتیاط سے توڑ کر سانچے کو الگ کر لیا جاتا ہے۔ یہ مومی سانچہ دھاتی اشیاء تیار کرنے کے لیے ایک بہترین ماڈل ہوتا ہے۔
Published: undefined
یہ تکنیک آج کے جدید دور میں بھی زیر استعمال ہے۔ کچھ تجدیدِ نو کے ساتھ مرکری (عطارد) کے مدار میں بھیجے جانے والی اسپیس کرافٹ 'میسنجر‘ کے بہت سے حصے اسی طرح تیار کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ یہ اسپیس کرافٹ 2011ء سے 2015 ء تک عطارد کے گرد مدار میں گردش کرتی رہی۔ بین الاقوامی خلائی مرکز کو اپ ڈیٹ کے لیے بھیجے جانے والے بہت سے آلات بھی اسی طرح تیار کیے گئے ہیں۔
Published: undefined
میتھیو تھاؤرے قدیم اشیاء پر تحقیق سے متعلق یورپیئن سینٹر سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک بہت چھوٹا پوشیدہ ڈھانچا دریافت کیا تھا، جس پر تحقیق کے لیے تیز روشنی کی شعاعوں والی فوٹو لیومی سینس کی تکنیک استعمال کی گئی۔ ان کے بقول جب انتہائی طاقتور روشنی کی شعائیں تعویز پر ڈالی گئیں تو الیکٹرانز، جن سے تعویز بنا تھا روشنی خارج کرنے لگے۔ اس روشنی کے طیف یا سپیکٹرم (سات رنگوں کی پٹی ) کا تجزیہ کر کے تھاؤرے نے جو معلومات حاصل کیں وہ حیران کن تھیں۔ تعویز کے اندرونی حصے میں کاپر آکسائیڈ کے لا تعداد چمکتے ہوئے پتلے راڈز تھے، جو صرف مائیکرو سکوپ سے نظر آ سکتے تھے۔ تھاؤرے بتاتے ہیں کہ اس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ اس دور کے ماہرین دراصل خالص تانبے سے اسے بنانا چاہتے تھے مگر تیاری کے دوران کچھ آکسیجن شامل ہونے سے کاپر آکسائیڈ تعویز کے مرکزی حصے میں راڈز کی صورت میں جمع ہو گئی۔ اسی باعث یہ ہزاروں سال تک زنگ لگنے سے محفوظ رہا۔
Published: undefined
میتھیو تھاؤرے بتاتے ہیں کہ مہر گڑھ کی تہذیب جہاں سے انہیں 36 برس قبل یہ تعویز ملا تھا، اسے نئی ایجادات کا مرکز مانا جاتا ہے۔ ان کے کاریگر اپنے کام میں انتہائی ماہر تھے، جس کا ایک ثبوت 6 ہزار سال قدیم یہ تعویز بھی ہے۔ ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ کم آبادی والے زراعت پیشہ یہ لوگ وادی سندھ کی قدیم ترین تہذیب کے پیش رو تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قدیم دور میں بھی لوگ نظرِبد سے بچنے کے لیے آج کل کی طرح چھوٹے زیورات پہنا کرتے تھے۔
Published: undefined
فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ فرانسوا جاریج کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سبی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں تقریبا 10 سے 11 ہزار سال قبل آبادی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ان شہروں میں عمارتوں کا جامع نظام تھا اور لوگ پیچیدہ ڈیزائن کے گھر بنانے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ علاقہ اہم تجارتی مرکز بھی تھا کیونکہ یہاں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ ان آثار قدیمہ سے اب تک 32 ہزار نمونے دریافت ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
جاریج کے مطابق مہر گڑھ، اریحا (فلسطین)، بسطہ اور ابیضا (اردن) اور چاتا لہوریک (ترکی) کی طرح قدیم زمانے میں باقاعدہ شہر ہونے کی تینوں شرائط پر پورا اترتا ہے۔یہاں آبادی 1 ہزار سے زیادہ تھی اور یہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ مگر متذکرہ بالا تینوں شہروں کی طرح اس علاقے پر بھرپور تحقیق نہیں کی گئی۔ 1970ء سے 2015ء تک فرانسیسی اور دیگر غیر ملکی ماہرین آثار قدیمہ یہاں تحقیق کرتے رہے ہیں مگر پاکستان کے ماہرینِ نے انتہائی اہمیت کے حامل اس علاقے کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے۔
Published: undefined
اگر ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ مہر گڑھ کی اہمیت کو بین الاقوامی سطح پر منوایا جائے اور مرکزی و صوبائی حکومت اس جانب بھر پور توجہ دے تو نا صرف بلوچستان کے یہ علاقے سیاحت کا مرکز بن سکتے ہیں بلکہ تحقیقی سرگرمیوں کے آغاز سے یہاں کے لوگوں کو روزگار کے ساتھ تعلیم و صحت کی سہولیات بھی دستیاب ہو جائیں گی۔
Published: undefined
ماہریں کے بقول انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ کسی دور میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہنے والا بلوچستان آج انتہائی پسماندگی کا شکار ہے اور تاریخی اہمیت کے حامل یہ آثار حادثات زمانہ کی نظر ہو کر تباہ ہو رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined