اس سال جب 25 مارچ کو بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے خلاف لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تو ملک بھر میں ہزاروں سیکس ورکرز کا ذریعہ آمدنی مکمل طور پر بند ہوگیا۔ امداد کے باوجود ان کے لیےگزارا کرنا کافی مشکل ہوگیا۔ ممبئی میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی بانی پریتی پرکار کا کہنا ہے، ''جون کے آخر تک سیکس ورکرز کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ ممبئی میں پولیس کافی متحرک تھی لہذا ممبئی کے قحبہ خانوں میں تمام سرگرمیاں بند تھیں۔ خواتین کو راشن وغیرہ تو فراہم کیا گیا لیکن وہ اپنے گھروں کے کرائے ادا نہ کر سکیں اور نہ ہی اپنے قرض اتار سکیں۔‘‘
Published: undefined
بحران کے آغاز سے ہی سیکس ورکرز سمیت غربت کے شکار افراد کو حکام مدد فراہم کر رہے ہیں۔ سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'دا دربار کلیکٹو‘ کا کہنا ہے، ''حکومت صرف ایسے افراد کو مدد فراہم کرتی ہے جن کے پاس راشن کارڈ ہے۔ بھارت میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں اور نہ ہی متعلقہ کاغذات ہیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
بھارت میں جیسے جیسے لاک ڈاؤن کی سختیاں کم ہو رہی ہیں، ریڈ لائٹ علاقوں میں سرگرمیاں بھی بحال ہو رہی ہیں۔ ’دا دربار کلیکٹو‘ کی کاجل بوس کا کہنا ہے، '' ہم اپنے گاہکوں کا بخار چیک کرتے ہیں اور گاہکوں کے آنے اور جانے کے بعد کمرے کی صفائی بھی کرتے ہیں۔ کچھ سیکس ورکرز فون سیکس کے ذریعے پیسہ کما سکتی ہیں لیکن زیادہ تر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔‘‘ پریتی کا بھی کہنا ہے کہ کم آمدنی والی سیکس ورکرز کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں جس کے ذریعے وہ فون پر گاہکوں سے ڈیل کر سکیں۔
Published: undefined
Published: undefined
پریتی کا کہنا ہے کہ کچھ سیکس ورکرز آمدن کے متبادل ذرائع تلاش کر پائی ہیں۔ 'دا دربار کلیکٹیو‘ چند خواتین سیکس ورکرز کو ماسک اور جراثیم کش مواد کی تیاری میں ملازمت فراہم کرنے میں مدد کر چکی ہے۔ اور مستقبل میں ان خواتین کو 'پی پی ای کٹس‘ کی تیاری کے کام کے ذریعے بھی روزگار میسر ہوگا۔
Published: undefined
پریتی کا کہنا ہے کہ کچھ سیکس ورکرز کو بعض اوقات قحبہ خانوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کے لیے اس لاک ڈاؤن میں گھر واپس جانا ممکن نہیں تھا۔ انہیں حالات سے سمجھوتا کر کے اپنے مالی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہوگی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز