اگر سب کچھ یوں ہی رہا، تو مشہور سعودی بلاگر رائف بدوی کو اگلے ہفتے قریب دس برس بعد جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔ وہ اپنے بلاگ 'فری سعودی لبرلز‘ کی وجہ سے تقریباﹰ ایک دہائی جیل سے میں ہیں۔ بدوی کو سن 2014 میں اسلام کی توہین اور مذہب اور ریاست میں علیحدگی کے الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔
Published: undefined
بدوی سعودی عرب کے ایک اہم قیدی ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی کئی ان جیسے الزامات رکھنے والے افراد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس کا تعین کرنا ممکن نہیں کہ رائف بدوی جیسے کتنے دوسرے افراد جیلوں میں ہیں۔
Published: undefined
سعودی حکومت کے مطابق اس وقت ملکی جیلوں میں حقوق کے لیے سرگرم قیدیوں کی تعداد صفر ہو چکی ہے لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایسے سرگرم کارکنوں کی تعداد اب بھی تین ہزار کے قریب ہے۔
Published: undefined
گزشتہ موسم گرما میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنے والی کئی زیر حراست خواتین بشمول نسیمہ السادہ اور سمر بدوی کو رہا کر دیا گیا تھا۔ سمر بدوی بلاگر رائف بدوی کی بہن ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا ان خواتین کی رہائی کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے۔
Published: undefined
اس تنظیم کے مطابق قید سے رہائی پانے والی خواتین کو سفر کی اجازت نہیں اور انہیں معطل سزاؤں کا سامنا ہے۔ سعودی حکام توقع کرتے ہیں کہ یہ افراد دوبارہ مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہ تفصیل ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رواں برس کی سالانہ رپورٹ میں بیان کی ہے۔
Published: undefined
سن 2021 میں رہائی پانے والوں میں ویمنز رائٹس کی سرگرم خاتون لجین الہذول کو بھی رہا کیا گیا تھا۔ یہ اس گروپ سے تعلق رکھتی ہیں، جس نے سعودی عرب میں خواتین کو کاریں چلانے کی اجازت دیے جانے کے لیے مہم شروع کی تھی۔
Published: undefined
الہذول کو سن 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے تین ہفتے بعد ملکی خواتین کو ڈرائیونگ کی باضابطہ اجازت دے دی گئی تھی۔ ایامِ اسیری کے دوران الہذول کا خاندان مسلسل ان پر کیے جانے والے تشدد کے حوالے سے حکام پر الزامات لگاتا رہا تھا۔
Published: undefined
سن 2018 میں ایک امدادی ورکر عبد الرحمٰن السادان کو سعودی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ السادان انٹرنیشنل ہلالِ احمر کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کو گرفتاری کے تین برس بعد سن 2021 میں عدالت نے بیس برس کی سزائے قید سنائی تھی۔
Published: undefined
ان کا جرم بھی انسانی حقوق کے حوالے سے تنقیدی کلمات اور ایک فرضی نام کے ساتھ ٹوئٹر پر اظہار رائے تھا۔ السادان کی ایک بہن اریج امریکا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے معتبر امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ سعودی حکام ان کے بھائی کو ابتدائی تین برسوں کی حراست کے دوران مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔
Published: undefined
اس تشدد کے دوران بجلی کے جھٹکے لگانے کے علاوہ کوڑے مارنے، نیند کے بغیر رکھنے، موت کی دھمکیاں دینے اور زبانی تذلیل اور قید تنہائی جیسے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ السادان کی بہن کے مطابق ان کے بھائی سے دوران قید ایسی دستاویزات پر زبردستی دستخط بھی کرائے گئے، جنہیں بعد میں ان کے خلاف بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا۔
Published: undefined
انسانی حقوق کے ایک اور کارکن محمد عُتبیٰ کو انسانی حقوق کی ایک تنظیم یونین فار ہیومن رائٹس قائم کرنے پر سن 2013 میں سترہ سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ اس تنظیم نے سعودی حکام سے اس کے قیام کی باقاعدہ اجازت مانگی تھی۔
Published: undefined
السادان کے ساتھ عربی زبان کے ایک فلسطینی نژاد شاعر اور مصنف اشرف فیاض بھی سن 2013 سے جیل میں بند ہیں۔ اشرف فیاض پر عائد الزامات میں عورتوں سے ناجائز تعلقات اور سیکولر نظریات کی حامل تحریریں شامل ہیں۔
Published: undefined
ان کی شاعری کی ایک کتاب کو خلاف مذہب قرار دے دیا گیا۔ ایک ماتحت عدالت نے عائد کردہ الزامات کے تحت سن 2015 میں فیاض کو موت کی سزا سنائی تھی مگر پھر سن 2016 یہ سزا موقوف کر کے اسے آٹھ برس کی سزائے قید اور آٹھ سو درے مارے جانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ سن 2020 میں سعودی حکومت نے انہیں کوڑے مانے کی سزا ختم کر دی تھی۔
Published: undefined
شامی ادیب یٰسین الحاج صالح نے اشرف فیاض کے مقدمے کو باعثِ شرم قرار دیا ہے۔ الصالح مصنفین کی بین الاقوامی تنظیم پین کی جرمن شاخ سے منسلک ہیں۔ پین کے مطابق دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں جہاں ادیبوں اور مصنفین کو بھی جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ ممالک چین، ترکی اور سعودی عرب ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز