اپریل سن 2021 میں ایک 19 سالہ ملزم کو ایک دکان سے پرفیوم کی دو بوتلیں ُچرانے کے الزام میں برلن کی ایک عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اپنی گرفتاری کے وقت یہ ملزم کرسٹل میتھ نامی ایک ممنوعہ نشے کا عادی تھا اور اپنا زیادہ تر وقت برلن کے ٹرین اسٹیشنوں پر سو کر گزارتا تھا۔ جج نے اس بے گھر اور نشے کے عادی ملزم کو اس کے خلاف مقدمےکی باقاعدہ عدالتی کارروائی شروع ہونے تک جیل بھجوانے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کا مقصد یہ تھا کہ ملزم کا ٹھکانا عدالت کے علم میں رہے اور مقدمے کی کارروائی کے وقت اس کی حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔
Published: undefined
اس مقدمے کے مختلف پہلوؤں کی روداد صحافی اور وکیل رونن شٹائنکے نے اپنی کتاب '' قانون کی نظر میں سب برابر نہیں‘‘ میں تحریر کی ہے۔ اس طرح کے واقعات جرمن دارالحکومت برلن میں ایک سال کے دوران ہزار بار پیش آتے ہیں۔ جرمنی میں سن 2020 میں 27 ہزار سے زائد افراد کو عدالتی کارروائی سے قبل (پری ٹرائل) حراست میں لیا گیا۔ یہ تعداد تمام جرائم میں شامل ملزمان کا تین فیصد بنتی ہے۔ یہ ملزمان عدالت سے حتمی سزا ملنے تک قانون کی نظر میں معصوم تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوری 2021ء میں جرمن جیلوں میں قید 60 ہزار قیدیوں میں سے 12 ہزار قانون کی نظر میں معصوم ہونے کے باوجود جیل کاٹ رہے تھے۔
Published: undefined
بہت سے یورپی ممالک میں عدالتی کارروائی سے قبل زیر حراست ملزمان کی تعداد جرمنی سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت یورپی یونین کے مختلف ملکوں نے ایک لاکھ افراد کو پری ٹرائل حراست میں لے رکھا ہے۔ اس حراست کا اوسط دورانیہ چند ماہ سے لے کر ایک سال سے زائد تک ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
اکثر واقعات میں یہ واضح ہے کہ مقدمے سے پہلے کسے حراست میں لیا جاتا ہے۔ اگرچہ غیر ملکی شہری جرمنی میں عام جیلوں کی آبادی کا صرف 12 فیصد ہیں لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پری ٹرائل حراست میں لیے گئے 60 فیصد افراد غیر ملکی شہری ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق تحویل میں لیے گئے زیادہ تر ملزمان بے روزگار تھے اور گرفتاری کے وقت ان کی تقریبا نصف تعداد بے گھر بھی تھی۔
Published: undefined
جرمنی بھر میں پری ٹرائل حراست میں رکھے گئے ایک تہائی سے زائد افراد معمولی اشیاء کی چوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کرسٹین مورگنسٹرن فری یونیورسٹی آف برلن میں فوجداری قانون اور صنفی مطالعات کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنا پوسٹ ڈاکٹریٹ مقالہ یورپ میں ملزمان کو قبل از مقدمہ حراست میں لیے جانےکے موضوع پرتحریر کر رکھا ہے۔ مورگنسٹرن کے مطابق، ''عام طور پر یہ ملزمان شراب، کافی، انرجی ڈرنک یا سلاد وغیرہ جیسی اشیاء کی چوری میں ملوث ہوتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
کسی ملزم کو مقدمے سےقبل حراست میں لینے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ججوں کو اس بات کا جائزہ لینا ہوتا ہے کہ کیا ملزم اپنے خلاف شواہد میں ردوبدل کر سکتا ہے؟ کیا وہ گواہوں کو ہراساں کر سکتا ہے؟ سب سے اہم پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر ملزم کو آزاد رہنے دیا گیا توکیا وہ قانونی چارہ جوئی سے فرار اختیار کر سکتا ہے؟ جرمنی میں 95 فیصد مقدمات میں ججوں نے ملزمان کے فرار ہونے کے خدشے کے پیش نظر انہیں مقدمے سے قبل حراست میں لینے کا حکم دیا۔
Published: undefined
اصولی طور پر ججوں کو یہ فیصلہ ہر انفرادی معاملے میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔ لیکن فوجداری دفاع کی وکیل لارا وولف کے مطابق، ''ہم احساسات، مفروضوں، ذاتی نظریات کی بنیاد پر لوگوں کو قید کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
لارا وولف کی تحقیق کے مطابق ثبوت کی عدم موجودگی میں، جج ذاتی تجربات اور پیشگی تصورات کی بنیاد پر اپنے نظریات تشکیل دیتے ہیں۔ قانونی حوالہ جات اور ججوں کے ساتھ انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ عام طور پرکسی بھی ملزم کے بیرون ملک رابطوں کو اس کے مقدمے کی کارروائی سے فرار ہونے کی ایک بڑی وجہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک مستقل ملازمت، اچھی تعلیم اور ذاتی تعلقات کو ملزم کے فرار ہونے کے امکان میں کمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وولف نے پورے جرمنی میں 169 مقدمات کا تجزیہ کیا، جن میں ججوں نے فرار ہونے کے خدشے کے باوجود قواعد کے مطابق ملزمان کو مقدمے کی کارروائی سے قبل آزاد رہنے دیا۔ لارا وولف کا کہنا ہے، ''میں ان فیصلوں کے نتائج دیکھ کر حیران رہ گئی۔ صرف 14 مقدمات کے علاوہ تمام مقدمات میں ملزمان نے عدالتی کارروائی کا سامنا کیا۔‘‘
Published: undefined
عدالتی مقدمے سے قبل گرفتاری کا معاملہ اکثر لٹک جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں زیر حراست تقریبا 80 فیصد افراد تین ماہ سے زیادہ وقت قید میں گزارتے ہیں۔ پری ٹرائل حراست اکثر جیل کی سزاؤں سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اس دوران ملزمان کو دن میں 23 گھنٹے بند رکھا جاتا ہے اور بیرونی دنیا سے بھی ان کا بہت کم رابطہ ہوتا ہے۔ جرمن قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مقدمے سے قبل حراست میں گزارا گیا وقت ملزمان کو ملنے والی ممکنہ سزا کے تناسب سے ہونا چاہیے۔ قانون کے مطابق اگر ملزم کو حتمی سزا سنا دی جائے تو جو وقت اس نے مقدمے سے قبل حراست میں گزارا ہوتا ہے، اسے حتمی سزا میں سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ لیکن تقریبا نصف مقدمات ملزمان کو جیل کی سزا سنائے بغیر ہی اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
جیلوں میں بھیڑ کی ایک بڑی وجہ یہاں مقدمات سے قبل زیر حراست ملزمان کی موجودگی ہے۔ یورپی یونین کے تقریبا تین میں سے ایک ملک کی سرکاری جیل میں گنجائش سے زیادہ ملزمان قید ہیں۔ ڈی ڈبلیوکی تحقیقات کے مطابق کووڈ انیس کی وبا کے دوران یہ صورتحال خاص طور پر پریشان کن ہے۔ تنگ کمرے اور حفظان صحت کی خراب صورتحال جیلوں کو کورونا وائرس جیسی بیماریوں کی افزائش کے لیے ایک مثالی جگہ بنا دیتی ہیں۔
Published: undefined
اگر تمام پری ٹرائل قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے تو یورپی یونین کے تقریبا تمام ممالک کی جیلوں میں بھیڑ کا مسئلہ فوری طور پر حل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ بعض مقدمات میں میں پری ٹرائل حراست ضروری ہو سکتی ہے لیکن اس عمل میں کمی لانے سےگنجائش سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں اور قیدیوں کو کچھ راحت مل سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز