سماج

’تبلیغی جماعت سے اختلاف ضرور لیکن دہشت گرد نہیں، حکم غیر واضح، پابندی افریقہ کی تنظیم الاحباب پر‘

تبلیغی جماعت کے خلاف سعودی عرب کے حالیہ فیصلے پربھارت کی مسلم جماعتوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن خود تبلیغی جماعت کی  خاموشی حیران کن ہے۔ شدت پسند ہندو تنظیموں نے پابندی کا مطالبہ شروع کردیا۔

تبلیغی جماعت پر سعودی پابندی: بھارتی مسلمان کیا کہتے ہیں؟
تبلیغی جماعت پر سعودی پابندی: بھارتی مسلمان کیا کہتے ہیں؟ 

سعودی عرب کی وزارتِ اسلامی امور نے کسی تنظیم کا نام لیے بغیر تبلیغ کو ''دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس تنظیم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی گزشتہ ہفتے ایک ٹویٹ کے ذریعہ اطلاع دی۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

بعد میں اسلامی امور کے وزیر ڈاکٹر عبداللطیف شیخ نے اپنی ٹویٹ کے ذریعہ بتایا کہ مساجد کے امام اور خطیبوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جمعے کے خطبوں میں تبلیغی جماعت اور اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے لوگوں کو متنبہ کریں۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

انہوں نے دیگر ٹوئٹ بھی کیے جن میں کہا گیا ہے کہ امام اور خطیب اپنے خطبات میں لوگوں کو اس گروپ کے اسلام سے انحراف، گمراہ کن خیالات اور ان کی اہم غلطیوں سے آگاہ کریں اور ''دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک‘‘ اس گروپ سے سماج کو لاحق خطرات کے بارے آگاہ کریں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس گروپ سے کسی طرح کی وابستگی ممنوع ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

پابندی کا حکم غیر واضح

سعودی وزیر برائے اسلامی امور نے اپنے بیان میں بھارت کی تبلیغی جماعت یا کسی دوسری بھارتی مسلم تنظیم کا واضح ذکر نہیں کیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ حکم افریقہ کے ایک سیاسی گروپ الاحباب کی تبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے ہے۔ تاہم تبلیغی نام کی وجہ سے اسے مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے ذریعہ سن 1926 میں بھارتی صوبے ہریانہ کے میوات میں قائم کی جانے والی تحریک سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تنظیموں کی نمائندہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا بیان پوری طرح واضح نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت میں گومگو کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

دیوبندی مکتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والی تبلیغی جماعت اس وقت دنیا کے 180سے زائد ملکوں میں سرگرم ہے اور تقریباً 40 کروڑ افراد اس سے وابستہ ہیں۔ اس کا مرکز نئی دہلی کے بستی حضرت نظام الدین میں ہے۔ تبلیغی جماعت پر نگاہ رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کو کبھی بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

اصل اختلاف نظریاتی ہے

تبلیغی جماعت پر تحقیقاتی کام کرنے والے صحافی ضیاء سلام کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت نے تبلیغی جماعت کو دہشت گرد نہیں کہا ہے البتہ سلفیوں اور تبلیغیوں کے اختلافات کافی پرانے ہیں اور حکومت نے اسی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

ضیاء سلام نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں کہا،''بیان کی غلط تشریح کی گئی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کا کبھی بھی خیرمقدم نہیں کیا گیا۔ انہیں وہاں چلّہ وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن سے دور رہتے ہیں۔ وہ قرآن کی تفیہم سے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن پڑھیے ضرور لیکن اس کو سمجھنا یا سمجھانا عالموں کا کام ہے جبکہ قرآن کے لحاظ سے یہ بات بالکل غلط ہے۔‘‘

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

’انسائیڈ دی تبلیغی جماعت‘ کے مصنف ضیاء سلام کہتے ہیں،''تبلیغی جماعت والے قرآن سے زیادہ 'فضائل اعمال‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اپنے زیراثر مساجد میں خواتین کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے آنے سے مسجد نعوذ باللہ ناپاک ہوجاتی ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔‘‘

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

دوسری طرف بھارت میں سلفی مسلک کے ماننے والوں کی سب سے بڑی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے صدر مولانا اصغر امام مہدی سلفی کا کہنا تھا کہ ابھی صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ نظریاتی اختلافات کا معاملہ نہیں ہے۔ مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل حکومتوں کے اپنے معاملات اور نزاکتیں ہوتی ہیں۔ جب کچھ ایسے عناصر پیدا ہوجاتے ہیں جنہیں حکومتیں اپنے لیے مسئلہ سمجھنے لگتی ہیں تو اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی کرتی ہیں۔‘‘ مولانا سلفی نے اس حوالے سے سعودی حکومت کی طرف سے ماضی میں اخوان المسلمون کے خلاف کیے گئے اقدامات کا حوالہ دیا۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

بھارتی مسلمانوں کا ردعمل

مسلکی اختلافات کے باوجود بھارت میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے سعودی عرب حکومت کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے تاہم جمعیت علماء ہند جیسی بڑی مسلم جماعت نے کافی محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی حکومت سے ان جماعتوں کے رہنماؤں کے ذاتی تعلقات اس کی وجہ ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

برصغیر کی تاریخی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا،''جزوی اختلافات کے باوجود تبلیغی جماعت اپنے مشن پر کام کر رہی ہے، اس سے وابستہ افراد اور جماعت کے مجموعی مزاج پر شرک و بدعت اور دہشت گردی کا الزام قطعی بے معنی اور بے بنیاد ہے۔ دارالعلوم دیوبند سعودی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور تبلیغی جماعت کے خلاف اس قسم کی مہم سے اجتناب کرے۔‘‘

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

یہ بات دلچسپ ہے کہ سن 2017 میں دارالعلوم دیوبند نے اپنے کیمپس میں تبلیغی جماعت کی تمام طرح کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس وقت مولانا نعمانی کے دستخط سے جاری ایک '' ضروری وضاحت‘‘ میں کہا گیا تھا کہ ،''یہ فیصلہ دارالعلوم دیوبند کو کسی بھی انتشار سے دور رکھنے اور اس کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے سعودی حکومت کے حکم کو غلط اور غیر منصفانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحت مذہبی تنظیموں کو ملک میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی آزادی ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،''تبلیغی جماعت ایک پُر امن جماعت ہے اور وہ اسلام کے لیے سرگرم ہے۔‘‘

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

بھارتی دانشور،انگلش جریدہ ''ملی گزٹ‘‘ کے مدیر اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ سلفی حضرات کو تبلیغی جماعت کے چلّہ وغیرہ سے تکلیف ہوسکتی ہے۔ اسی طرح وہ قرآن کی جگہ''فضائل اعمال‘‘ اور ''حیات الصحابہ‘‘ کو فوقیت دیتے ہیں اوراحادیث کے صحیح مجموعے نہیں پڑھتے۔ یہ بھی قابل اعتراض ہے لیکن انہیں دہشت گرد کہنا غلط ہے کیونکہ ان کی اٹھان ہی ایسی نہیں ہے۔‘‘

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کی پراسرار خاموشی

اتنے بڑے فیصلے کے دس روز گزر جانے کے باوجود بھارت میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کی طرف سے کوئی بیان اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ موجودہ امیر مولانا محمد سعد کے ایک قریبی نے پہلے تو بات کرنے کا وعدہ کیا تاہم بعد میں ٹال گئے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

تبلیغی جماعت کے اس رویے کا اثر نہ صرف اس جماعت پر بلکہ مجموعی طور پر بھارتی مسلمانوں پر پڑ نے لگا ہے۔ اس کی آڑ میں بعض مسلم دشمن جماعتیں ایک بار پھر سرگرم ہوگئی ہیں۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

صحافی ضیاء سلام کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کا اسلام کے متعلق نقطہ نظر بالکل غیرعملی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دین صرف مسجد تک محدود ہے۔ مسجد میں بیٹھیے، چار دن، چالیس دن اور چار مہینے کا چلّہ لگائیے تو آپ بڑے دیندار ہیں۔ حالانکہ دین تو پوری زندگی ہے۔ وہ کہتے ہیں'' دیگر جماعتوں نے دیوبند میں ان کے حق میں بولا ہے لیکن تبلیغی والے خود کیوں خاموش ہیں۔ مولانا سعد کہاں ہیں؟ ان کا میڈیا پرسن کہاں ہے؟

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

شدت پسند ہندو تنظیموں کے پو بارہ

تبلیغی جماعت کے متعلق سعودی عرب کا فیصلہ اور خود جماعت کی خاموشی سے بھارت میں شدت پسند ہندو تنظیموں کے پوَ بارہ ہوگئے ہیں۔انہوں نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ تیز کردیا ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

تقریباً نصف صدی سے صحافت سے وابستہ ضیاء سلام کہتے ہیں کہ بھارتی میڈیا تو پہلے سے ہی اسلام مخالف ہے۔ کووڈ کے زمانے میں تبلیغی جماعت کو جس طرح ڈھال بنا کر پورے مسلمانوں پر حملہ کیا گیا اسی طرح ایک بار پھر کیا جارہا ہے۔ چونکہ تبلیغی جماعت بھارت کی سب سے بڑی مسلم جماعت ہے اس لیے اس پر حملے کا واضح مطلب مسلمانوں کونشانہ بنانا ہے۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

تاہم بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ پابندی لگانے کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔ اسلامی امور کے ماہر اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع کا کہنا تھا کہ اگر یہاں تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ ہوگا تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہاں قانون کی پاسداری ہے اور دستور نے سب کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے۔ ہمیں دستور کا تحفظ حاصل ہے۔ لہٰذا اگر یہاں ایسا کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 16 Dec 2021, 6:11 AM IST