بھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کو اتوار کے روز فرینکفرٹ کے تاریخی سینٹ پال چرچ میں جرمن بک ٹریڈ کے امن انعام سے نوازا گیا۔ اس انعام کے ساتھ 25 ہزار یورو کی رقم بھی دی جاتی ہے اور یہ جرمنی کے سب سے باوقار انعامات میں سے ایک ہے۔ پہلی بار 1950 میں یہ انعام پیش کیا گیا تھا۔
Published: undefined
اس موقع پر سلمان رشدی کے ایک دوست اور ساتھی مصنف ڈینیئل کیہلمین نے اپنی تقریر کے دوران رشدی کی تعریف کرتے ہوئے مصنف کو '' ہمارے دور میں آرٹ اور آزادی اظہار کا ممکنہ طور پرسب سے اہم محافظ'' قرار دیا۔ پچھلے سال رشدی پر چاقو سے حملہ ہوا تھا، جس میں وہ بچ گئے تھے۔ انہوں نے بھی اس موقع پر آزادی اظہار کا دفاع جاری رکھنے کا عہد کیا۔
Published: undefined
اس سے قبل ایوارڈ جیوری نے کہا تھا کہ معروف مصنف نے ''اپنی ناقابل تسخیر روح، اپنی زندگی کے مثبت پہلو اور کہانی کہنے کی اپنی محبت سے ہماری دنیا کو مالا مال کیا، جس کے لیے وہ ایوارڈ کے مستحق ہیں۔''
Published: undefined
جیوری نے انعام سے متعلق ویب سائٹ پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، ''وہ اپنے ناولوں اور نان فکشن میں بھی ادبی جدت، مزاح اور دانشمندی کے ساتھ داستانوی دور اندیشی کو مربوط کرتے ہیں۔'' جون میں ہی جیوری نے اس انعام کے لیے رشدی کو فاتح کے طور پر اعلان کیا تھا، لیکن اس ایوارڈ کی تقریب اتوار کے روز فرینکفرٹ بک فیئر کے اختتام پر ہوئی۔
Published: undefined
اس ہفتے کے اوائل میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران سلمان رشدی نے کہا تھا، ''سرکردہ افراد کی ایک قابل ذکر فہرست اس (جرمن امن انعام) سے سرفراز ہو چکی ہے۔ لہذا اس فہرست میں میرا نام شامل ہونے پر بہت خوش ہوں۔'' ایوارڈ پا کر رشدی مارگریٹ اٹوڈ، اورہان پاموک، سوسن سونٹاگ، آموس اوز، وکلاو ہیول جیسے سرکردہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
Published: undefined
بھارتی نژاد برطانوی ناول نگار سلمان رشدی نے سن 1981 میں اپنی ایک کتاب 'مڈ نائٹ چلڈرن‘ سے شہرت حاصل کی تھی۔ صرف برطانیہ میں اس کتاب کی دس لاکھ سے بھی زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ تاہم سن 1988 میں آنے والی ان کی چوتھی کتاب 'سیٹینک ورسیز‘ (شیطانی آیات) نے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا، جس سے مسلمان خاص طور پر ناراض ہو گئے۔
Published: undefined
اس کتاب کی وجہ سے ان کے خلاف موت کے فتوے جاری کیے گئے اور رشدی کو تقریبا ًدس برس تک روپوش رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایرانی رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے بھی ایک ''فتویٰ'' جاری کیا تھا، جس میں توہین مذہب کے الزامات کے تحت رشدی کو مار دینے کی بات کہی گئی تھی۔ حالانکہ بعد میں ایرانی حکومت نے اس فتوے سے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا۔
Published: undefined
75 سالہ رشدی بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، تاہم وہ ایک ملحد کے طور پر اپنی شناخت بتاتے ہیں۔ فتویٰ جاری ہونے کے بعد تو رشدی روپوش ہو گئے تھے، البتہ گزشتہ کئی برسوں سے وہ کھلے عام زندگی گزار رہے ہیں۔
Published: undefined
سلمان رشدی نے اب تک 14 سے زیادہ ناول لکھے ہیں اور ان کا تازہ ترین ناول 'وکٹری سٹی' ہے، جو اسی سال شائع ہوا۔ یہ ناول ان پر گزشتہ برس ہونے والے چاقو سے حملے کے بارے میں ہے۔ سن 2016 میں انہوں نے امریکی شہریت حاصل کی تھی اور تبھی سے وہ نیویارک شہر میں رہ رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined