مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ گزشتہ ہفتے جنوبی عراق کے نصیریہ میں ہزاروں لوگوں نے روٹی، کوکنگ آئل اور روز مرہ کی دیگر اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف مظاہرے کیے۔ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے عراق میں درآمد کی جانے والی مصنوعات کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔
Published: undefined
رواں ہفتے ہزاروں سوڈانی سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ جہاں فوجی حکومت سے ناراض تھے وہیں روٹی کی قیمت، جو تقریباً 50 فیصد بڑھ گئی ہے، کے خلاف بھی احتجاج کررہے ہیں۔
Published: undefined
روٹی کی قیمتوں میں یہ اضافہ یوکرین پر روسی فوج کے حملے کا نتیجہ ہے۔ یوکرین دنیا میں سب سے زیادہ گیہوں پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ وہ تیل کے بیچ ایکسپورٹ کرنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے۔ یوکرین کی گیہوں برآمدات کا تقریباً نصف مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو جاتا ہے۔ روس دنیا میں گیہوں برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
Published: undefined
مارکیٹ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے روس اور یوکرین دونوں کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں اور اس کے سبب گیہوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی اس میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا جو پچھلے 14 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس نے مشرق وسطیٰ کے ملکوں پر اب غیرمعمولی اثرات مرتب کرنے شروع کردیے ہیں۔
Published: undefined
ماضی میں روٹی کی قیمتوں میں اضافہ خطے میں سیاسی تبدیلوں کا پیش خیمہ بنتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر مصر میں ''انتفاضہ الخبز" یعنی 'روٹی انقلاب' کی ایک تاریخ ہے۔1977میں اقتصادی اصلاحات کے نام پر سبسڈی ختم کردی گئی جس کی وجہ سے خوردنی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی۔ اس کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہوگئے۔
Published: undefined
سن 2011 میں عرب بہار کے دوران "روٹی، آزادی اور سماجی انصاف"مقبول نعرہ تھا۔ان مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
Published: undefined
عرب بہار پر تحقیقات کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈکٹیٹروں سے عوام کی مایوسی کے علاوہ خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور خوراک کی عدم سلامتی بھی سیاسی تبدیلی کے اہم اسباب تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سن 2019 میں سوڈان کے صدر عمر البشیر نے جب روٹی کی قیمتیں تین گنا بڑھا دیں تو ان کے خلاف مظاہرے شرو ع ہوگئے اور بالآخر انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
Published: undefined
امریکی تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کاروں نے فروری میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا، "توانائی اور خوردنی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے درمیان یوکرین کا بحران مشرق وسطیٰ کے متعدد ملکوں میں نئے مظاہروں اور عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔"
Published: undefined
ورلڈ بینک کے نائب صدر فرید بلہاج کا خیال ہے کہ شام، لبنان اور یمن جیسے ممالک کی حکومتیں اور معیشت پہلے سے ہی کمزور ہیں اور یہ گیہوں کی درآمدات پر بھی کافی منحصر ہیں۔
Published: undefined
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے سبب مشرق وسطیٰ میں روٹی اور روز مرہ کی دیگر اشیاء نیز ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگیا ہے۔ لیکن کیا ان کی وجہ سے ایک بار پھر کوئی انقلابی سیاسی تبدیلی آسکتی ہے؟
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرنے والے ماہرین اس حوالے سے بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز لندن کے جون رائینے کہتے ہیں، "لوگ حقیقتاً اقتصادی دباو میں ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ جس طرح پچھلی مرتبہ(عرب بہار کے دوران) ہم نے دیکھا تھا اس طرح کا کوئی بڑا دھچکا پہنچنے والا ہے۔"
Published: undefined
ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے کے بیشتر ملکوں میں اب سیاسی صورت حال بہت مختلف ہے۔ "ان ملکوں کی حکومتوں نے یا تو پہلے سے بہت زیادہ کنٹرول حاصل کرلیا ہے یا پھر اپوزیشن جماعتوں کو حاثیے پر لگا دیا ہے۔ یہاں سیاسی نظام مزید لچکدار ہوگیا ہے، جو کہ گزشتہ دس برسوں کا نتیجہ ہے۔"
Published: undefined
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے فیلو مائیکل ٹینچم کا خیال ہے کہ آئندہ بہت کچھ اس بات پر منحصر کرے گا کہ کسی ملک میں گورننس کا کیا حال ہے۔ وہ کہتے ہیں جہاں تک اناج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سوال ہے تو ان ملکوں میں پہلے سے ہی "طوفان جنم لے رہاہے۔" کووڈ کی وبا نے سپلائی کو متاثر کیا جبکہ ماحولیاتی تبدیلی کے سبب مشرق وسطیٰ میں زیادہ اناج پیدا نہیں ہوسکا۔
Published: undefined
ٹینچم کہتے ہیں، "جون 2021 میں خوردنی اشیاء کی افراط زر کی شرح ٹھیک اسی سطح تک پہنچ گئی جو عرب بہار شروع ہونے سے ذرا قبل تھی۔ روس کی طرف سے یوکرین پر حملے نے اس طوفان کو سونامی کی شکل دے دی ہے۔" ٹینچم کا کہنا ہے یہ صورت حال خطرناک رخ اختیار کرتی ہے یا نہیں اور اس کے نتیجے میں پرتشدد مظاہرے اور سیاسی تبدیلی ہوتی ہے یا نہیں یہ بہت کچھ اس بات پر منحصر کرے گا کہ حکومتیں صورت حال کو کس طرح کنٹرول کرتی ہیں اور عوام کی شکایتوں کو کتنے موثر طورپر ازالہ کرتی ہیں۔
Published: undefined
ٹینچم کا خیال ہے کہ شورش ایک حد تک تو ہوسکتی ہے لیکن ویسی نہیں جیسا کہ عرب بہار کے دوران دیکھنے میں آئی تھی ۔ "میرے خیال میں بنیادی بات یہ ہے کہ (آنے والے دنوں کے سلسلے میں) نہ تو ہمیں پرامید اور نہ ہی مایوس ہونا چاہئے بلکہ چوکنا رہنے اور موثر اقداما ت کرنے کی ضرورت ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز