روس نے یوکرین میں اپنی فوجی کارروائیوں کی نگرانی ایک ایسے جنرل کی سپرد کی ہے، جسے 'بُچر آف سیریا‘ یا 'شام کا قصاب‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم عسکری امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنرل دوورنیکوف شام میں تعینات دیگر روسی فوجی افسران جیسے ہی ہیں اور ان میں کوئی منفرد بات نہیں۔
Published: undefined
جنرل الیکسانڈر دوورنیکوف ساٹھ برس سے زائد عمر کے ایسے عسکری کمانڈر ہیں، جو روسی فوج میں مختلف نوعیت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جب روسی فوج نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی مدد شروع کی، تو وہ شام میں تعینات کیے جانے والے پہلے سینیئر روسی کمانڈر تھے۔ دوورنیکوف شام میں ستمبر 2015ء سے جولائی 2016ء، یعنی تقریباﹰ دس ماہ تک تعینات رہے تھے۔
Published: undefined
تب 2011ء میں اسد خاندان کے خلاف شروع ہونے والا عوامی احتجاج ایک خونریز خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ 2015ء کے موسم گرما میں اسد حکومت نے روس سے مدد طلب کی اور اسی سال ستمبر میں روس اس جنگ میں شامل ہو گیا۔
Published: undefined
اس کے بعد روسی جنگی طیاروں نے شام کے شہری علاقوں پر اندھا دھند بمباری کرنا شروع کی، خاص طور پر شمالی شام کے شہر حلب میں۔ اس بمباری نے مزاحمتی تحریک کی کمر توڑ دی اور حالات اسد حکومت کے حق میں ہو گئے۔
Published: undefined
روس جنگی طیاروں نے مساجد، بازاروں، اسکولوں، ہسپتالوں حتیٰ کہ کھیتوں تک کو نشانہ بنایا۔ اسد حکومت کے مخالف جنگجوؤں کے پاس بہت کم ہی اینٹی ایئر کرافٹ میزائل تھے اور اسی وجہ سے وہ روسی فوج سے لڑ نہ سکے، حالانکہ شامی فوج کے خلاف انہیں کچھ کامیابیاں ملی تھیں۔
Published: undefined
شام میں روسی فوجی کارروائیوں کو کامیابی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے جنرل دوورنیکوف کو 'شام کے قصاب‘ کا نام دیا گیا تھا۔ انہیں 2016ء میں 'روسی فیڈریشن کا ہیرو‘ نامی اعلیٰ ملکی اعزاز بھی دیا گیا تھا۔
Published: undefined
واشنگٹن میں'آئی ایس ڈبلیو‘ نامی ایک تھنک ٹینک میں مبصرین کی جانب سے ایک جائزہ پیش کیا گیا، جس کے مطابق شام میں جنرل دوورنیکوف کے طرز عمل یا عسکری قابلیت کی کوئی خاص تعریف نہیں کی جا سکتی، ''روسی دستوں نے شام میں مداخلت کے دوران شہریوں اور انتہائی اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا۔‘‘
Published: undefined
اس جائزے میں مزید بتایا گیا کہ شام میں روسی دستوں کی کمان کے دوران جنرل دوورنیکوف کا شہری علاقوں کو ہدف بنانا کوئی خاص مہارت نہیں تھی اور اسے کوئی منفرد عسکری طریقہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ شام اور یوکرین میں استعمال کیے جانے والے حربے منفرد نہیں ہیں اور مؤثر بھی ثابت نہیں ہو رہے۔‘‘
Published: undefined
جنرل دوورنیکوف کو یوکرین میں جاری فوجی کارروائیوں کا نگران بنانا کوئی سنسنی خیز فیصلہ نہیں ہے۔ یہ بہت منطقی انتخاب ہے۔ 2016ء میں شام سے واپسی کے بعد سے وہ روس کے جنوبی علاقوں کے کمانڈر رہے ہیں، جن میں ڈونباس اور کریمیا بھی شامل ہیں۔ اطلاع ہے کہ ان علاقوں میں روس ایک نئی فوجی کارروائی شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پچھلے مہینوں کے دوران یوکرین میں ان تمام محاذوں پر کافی پیش قدمی ہوئی ہے، جو اس روسی جنرل کی نگرانی میں تھے۔ جنرل دوورنیکوف یوکرین کے محصور شہر ماریوپول کے اردگرد جاری آپریشنز کے بھی نگران تھے۔ وہ صرف جنوبی یوکرین میں سب سے طویل عرصے سے فوجی خدمات انجام دینے والے جنرل ہی نہیں بلکہ اس وقت سب سے سینیئر کمانڈر بھی ہیں۔
Published: undefined
آئی ایس ڈبلیو نامی تھنک ٹینک کے مبصرین کے مطابق یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جنرل دوورنیکوف کا شام میں عسکری تجربہ یوکرین میں کچھ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ شام میں خدمات انجام دینے والے پہلے روسی کمانڈر تھے اور انہوں نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر آپریشنز کیے۔ لیکن یوکرین میں صورتحال مختلف ہے۔ یوکرین کے پاس اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور میزائل بھی ہیں۔ ان کے علاوہ یوکرین کے پاس جدید اسلحہ اور اپنی فضائیہ بھی ہے۔ لبنانی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ایک ریٹائرڈ جنرل الیاس ہانا کے مطابق شام میں روسی فوج نے صرف فضائی کارروائیاں کی تھیں اور جنرل دوورنیکوف نے فضائی بمباری کی نگرانی کی تھی، ''روسی پیدل فوج کا شامی سرزمین پر کبھی کسی فوج سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ مگر یہاں یوکرین میں زمین پر لڑائی ہو رہی ہے، دو ممالک کی افواج اور تربیت یافتہ دستوں کے درمیان، اور ساتھ ہی فضائی کارروائیاں بھی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا