کل صبح ہفتہ یوکرینی دارالحکومت کییف میں روس کی جانب سے دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ان دھماکوں کے چند منٹ بعد شہر بھر میں فضائی حملے کے سائرن بجنے لگے۔ یوکرین کے صدارتی دفتر کے نائب سربراہ کیریلو تیموشینکو نے ٹیلی گرام پر ایک پیغام میں کہا کہ کییف میں ایک بار پھر اہم شہری ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا۔
Published: undefined
شہر میں موجود فوجی انتظامیہ کے مطابق حملوں کا ہدف ایک ایسا علاقہ تھا، جہاں پہلے ہی ایمرجنسی سروسز کام کر رہی تھیں۔ کییف کے میئر وٹالی کلچکو نے بتایا کہ دنیپروسکی ضلع میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ کلچکو نے یہ بھی کہا کہ میزائل کے ٹکڑے ہولوسیوسکی ضلع کے دائیں کنارے پر ایک غیر رہائشی علاقے پر گرے اور وہاں ایک عمارت میں آگ بھڑک اٹھی تاہم اب تک اس حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں۔
Published: undefined
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کییف میں متعدد شہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا یا صرف ایک ہی پر حملہ کیا گیا۔ یوکرین کے دارالحکومت پر نئے سال کی شروعات کے بعد یہ پہلا میزائل حملہ ہے۔
Published: undefined
یوکرینی صدارتی دفتر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کییف کے مضافاتی گاؤں کوپیلیوگ میں رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں آس پاس کی دیگر رہائشی عمارتوں کی کھڑکیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ علاقائی گورنر اولیکسی کولیبا نے اپنے ایک ٹیلی گرام پوسٹ میں کہا، ''چھتیں اور کھڑکیاں تباہ ہو گئی ہیں لیکن ابھی تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘‘
Published: undefined
اس سے قبل دو روسی میزائلوں نے یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف کو نشانہ بنایا تھا۔ خارکیف کے گورنر اولغ سنیگوبو کا کہنا ہے کہ روسی افواج نے صنعتی ضلع خارکیف پر دو S-300 میزائل داغے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''علاقے کی توانائی اور صنعتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے‘‘۔
Published: undefined
روس کی جانب سے یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب یوکرین کے مشرق میں واقع نمک کی کان کنی کے قصبے سولیڈار کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ روس کا دعویٰ ہے کہ اس کی افواج نے اس قصبے پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ایک ایسی پیشرفت ہے، جو میدان جنگ میں کئی ناکامیوں کے بعد کریملن کے لیے ایک غیر معمولی فتح کی علامت ہو گی۔
Published: undefined
برطانوی حکومت نے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کو جنگی ٹینک فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے یوکرینی صدر ولوودیمیر زیلنسکی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے انہیں اضافی توپخانے کی مدد فراہم کرنے کا بھی یقین دلایا ہے۔ قبل ازیں یورپی ملک فرانس نے بھی یوکرین کو ٹینک فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ابھی تک جرمنی یوکرین کو ٹینکوں جیسے بھاری ہتھیار فراہم کرنے سے انکار کرتا آیا ہے۔ دوسری جانب یوکرینی صدر نے فرانس اور برطانیہ کے اس فیصلے کو مثالی قرار دیتے ہوئے دیگر یورپی ممالک سے بھی کہا ہے کہ وہ ان کی پیروی کریں۔
Published: undefined
انقرہ حکومت نے کہا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ نہ تو ''ماسکو اور نہ ہی کییف حکومت جیت‘‘ سکتی ہے۔ تاہم ترک حکومت نے کہا ہے کہ وہ ''مقامی جنگ بندی‘‘ پر زور دینے کے لیے تیار ہے۔ چند روز پہلے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر کہا تھا کہ وہ یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیں۔ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ہے لیکن باقی یورپی ممالک کے برعکس اس کے روس کے ساتھ تعلقات بھی دوستانہ ہیں۔ یوکرین سے گندم کی برآمدات کے معاہدے میں بھی ترکی نے بطور ثالث اہم کردار ادا کیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز