نوبل فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس اور بیلا روس کے نمائندوں کو نوبل انعام کی تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی جبکہ ایران کو بھی اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس بار سویڈن کے دارالحکومت میں ہونے والی تقریب میں ان تینوں ممالک کے نمائندوں کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
Published: undefined
فاؤنڈیشن نے کہا کہ اس نے ان لوگوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے، جو نوبل انعام کی اقدار کا اشتراک نہیں کرتے ہیں۔ امیگریشن مخالف سویڈش ڈیموکریٹس پارٹی کے ایک رہنما جمی اکیسن کو بھی اس برس پہلی بار تقریب میں مدعو کیا گیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ مصروفیات کی وجہ سے وہ اس میں شرکت نہیں کریں گے۔
Published: undefined
نوبل انعام کی چھ میں سے پانچ تقریبات ہر برس اسٹاک ہولم میں ہوتی ہیں، جبکہ امن کے نوبل انعام کی تقریب اوسلو میں منعقد ہوتی ہے اور وہیں یہ دیا جاتا ہے۔ پچھلے سال نوبل فاؤنڈیشن نے کہا تھا کہ روس اور بیلاروس کے سفیروں کو ''یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے'' مدعو نہیں کیا جائے گا۔
Published: undefined
بیلاروس روس کا اہم اتحادی ہے اور اس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو نے روس کے ''خصوصی فوجی آپریشن'' کی حمایت کی تھی۔ ایران کو بھی گزشتہ سال مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ تہران کو انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے طویل عرصے سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے، ایرانی حکومت انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
تاہم ایک سویڈش یورپین پارلیمان کی رکن کیرن کارلسبرو نے فاؤنڈیشن کی جانب سے دعوت ناموں بھیجنے کے اس فیصلے کو ''انتہائی نامناسب'' قرار دیا۔ انہوں نے فاؤنڈیشن پر الزام لگایا کہ جب یوکرین کے ثقافتی مراکز پر میزائل گر رہے ہیں اور بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ''روس کو ایک گلیمرس پارٹی میں مدعو کرنے کے لیے گرین لائٹ دے کر ایک ''خطرناک مثال'' قائم کی گئی ہے۔
Published: undefined
سویڈن کے سرکاری ریڈیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے روس، بیلاروس اور ایران کو ایسی ''بدمعاش ریاستیں '' قرار دیا جو ''اپنے شہریوں پر ظلم کرتی ہیں، جو اپنے ہی لوگوں اور پڑوسی ممالک کے خلاف جنگ اور دہشت گردی جیسی حرکتوں میں ملوث ہیں۔'' انہوں نے کہا کہ ''وہ ایسے ممالک ہیں جو کسی بھی طرح سے جمہوری اقدار کو نہیں اپناتے ہیں۔''
Published: undefined
عموماً سویڈن کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو روایتی سطح پر نوبل انعام کی ضیافت میں مدعو کیا جاتا ہے، تاہم سویڈن کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹس رہنما جمی اکیسن کو ماضی میں کبھی دعوت نہیں دی گئی۔
Published: undefined
ان کی پارٹی کو نازیوں کے ہمدردوں نے قائم کی تھی اور کئی دہائیوں سے اسے مرکزی دھارے سے دور رکھا گیا ہے۔ پچھلے سال کے عام انتخابات میں اس پارٹی نے تقریباً پانچ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ مسٹر اکیسن نے کہا کہ وہ نوبل کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔ انہوں نے فیس بک پر لکھا، ''بدقسمتی سے میں اس دن مصروف ہوں۔''
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز