متعدد سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات اور عالمی وباؤں کے دوران معاشروں میں اس طرح کی غلط فہمیوں کا پھیلنا کوئی انوکھی یا اچھوتی بات نہیں۔ بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے وابستہ میڈیا اسٹڈیز کے پروفیسر نبیل دجانی کے بقول دراصل معاشرے میں کئی حلقے وباؤں کا مقابلہ کرنے کی خاطر اس طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔
Published: undefined
نبیل نے کہا، ''پیچیدہ بحران اور تنازعات میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ موجودہ درپیش حالات کو سمجھنے کی خاطر اپنی کلچرل و مذہبی روایات اور کہانیوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں‘‘۔ نبیل نے کہا کہ اس وقت کووڈ انیس کے بحران میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، ''یہ صرف مسلم خطوں میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ہو رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کے حقیقی ہونے کی تصدیق مشکل ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس عالمی وبا سے بچاؤ اور علاج کے غلط طریقے عام ہیں جبکہ ساتھ ہی سازشی نظریات بھی بہت گردش میں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران کئی ممالک کے سربران حکومت و مملکت بھی غلط دعوے کرتے نظر آ رہے ہیں۔
Published: undefined
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عربی زبان بولنے والے عرب ممالک میں سوشل میڈیا پر بالخصوص مذہبی دعوؤں کے حوالے سے ایک جائزہ کیا۔ حقائق کیا ہیں؟ اور لوگ کیا دعوے کر رہے ہیں؟ اس جائزے کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر مذہبی دعوے غلط اور جعلی ہی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اے ایف پی کے 'فیکٹ چیکر‘ اس تجزیے میں بتایا گیا کہ ایک ویڈیو فروری سن 2020 میں کافی مشہور ہوئی۔ اس ویڈیو کے ساتھ لکھا گیا کہ چینی نسل کے باشندے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'کورونا وائرس مسلمانوں کو متاثر نہیں کرتا، اس لیے یہ چینی لوگ مسلمان ہو رہے ہیں‘۔ حالانکہ یہ ویڈیو مئی سن 2019 کی تھی، جس میں تگالوگ زبان بولنے والے افراد اسلام قبول کر رہے تھے۔
Published: undefined
ایسا ہی ایک اور کلپ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ مشہور ہوا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد بیجنگ حکومت کی طرف سے 'قرآن مجید‘ پر عائد کردہ پابندی اٹھا لی گئی ہے، اس لیے چینی لوگ بڑی تعداد میں اس مقدس کتاب کی کاپیاں حاصل کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کلپ سن 2013 سے آن لائن گردش کرتا رہا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چینی لوگوں میں مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل کی کاپیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
کورونا وائرس کے بحران میں فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر ایک اور کلپ بھی بہت زیادہ مشہور ہوا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسپین میں کورونا وائرس کی شدید ترین تباہی کے بعد وہاں اذان دینے پر عائد پابندی اٹھا لی گئی ہے اور پانچ سو سال بعد پہلی مرتبہ اندلس کی فضاؤں میں اللہ کا نام گونجنا شروع ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسپین میں اذان دینے پر پابندی تھی ہی نہیں۔
Published: undefined
اے یو بی میں سماجیات کے پروفیسر ساری حنفی کہتے ہیں، ''ہمارے ریجن میں کبھی کبھار مذہبی دعوے سائنس اور طب سے متضاد ہوتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، ''لیکن مذہب سماجی یک جہتی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے، جس سے قرنطینہ میں نفسیاتی دباؤ سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
مذہبی دعوؤں کے علاوہ اے ایف پی نے ایسی جھوٹی خبروں کے بارے میں بھی حقائق جاننے کی کوشش کی، جن میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مغربی ممالک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ عرب ممالک میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت زیادہ شیئر کی گئی، جس کا عنوان تھا کہ اٹلی کے عوام کورونا وائرس کی وجہ سے اجتماعی خود کشیاں کر رہے ہیں۔
Published: undefined
حالانکہ یہ ایک پرانی ویڈیو تھی، جس میں اطالوی عوام انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل گروپوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود کشی کرنے کا ایکٹ کر رہے ہیں۔ عرب دنیا کے سوشل میڈیا پر اطالوی وزیر اعظم سے منسوب ایسے غلط دعوے بھی گردش کرتے رہے، جن میں کہا گیا کہ اٹلی میں کورونا وائرس سے 'بچاؤ کا طریقہ اب صرف جنت سے ہی آ سکتا ہے‘۔
Published: undefined
Published: undefined
برطانیہ میں اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز اسکول سے وابستہ دینا ماٹر کا کہنا ہے کہ 'سازشی نظریات‘ کسی ایک خاص ریجن کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ دنیا کے دیگر خطوں سے مختلف ہے، ''مذہب کو ہمیشہ ہی پولیٹیکل ڈسکورس (سیاسی اظہار خیال و بحث) کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ معاملہ صرف مشرق وسطیٰ کا ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
پروفیسر ساری حنفی کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے علاوہ دیگر خطوں میں بھی سازشی بحث صرف مذہب سے ہی نہیں جوڑی جاتی بلکہ اس میں مبالغہ آرائی کی حد تک جذبہ حب الوطنی، سماجی امتیاز اور نسل پرستانہ دقیانوسی خیالات کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا، ''اس طرح کی غلط معلومات زیادہ عام اس وقت ہوتی ہیں، جب ہم خود کو حقیقت کا مقابلے کرنے کے قابل تصور نہیں کرتے اور یہ نہیں جانتے کہ کسی شے کو سائنسی اعتبار سے کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined