سماج

پیرس شہر کی تاریخ کا ایک نسوانی پہلو بھی ہے

پیرس شہر کے سیاحوں کے لیے اس کی دلچسپ تاریخ مردوں کی کامیابیوں کے گرد ہی گھومتی تھی تاہم اب یہ صورت حال بدل چکی ہے۔

پیرس شہر کی تاریخ کا ایک نسوانی پہلو بھی ہے
پیرس شہر کی تاریخ کا ایک نسوانی پہلو بھی ہے 

پیرس کا دورہ کرنے والوں کے لیے اب تک اس شہر کی تاریخ مردوں کی کامیابیوں کے گرد گھومتی تھی۔ فرانسیسی دارالحکومت کی تاریخ میں خواتین نے کیا کردار ادا کیا، عموماً یہ پہلو اندھیرے ہی میں رہا۔ تاہم اب یہ صورت بدل چکی ہے۔

Published: undefined

یورپ کے رومانوی کشش سے بھرپور شہر پیرس کی ایک اجلی، دھوپ سے چمکتی صبح ٹورسٹ گائیڈ مینا بریاں پیرس کے ایک لیجنڈری کیفے 'لے دو ماگو‘ اور 'ساں گرماں دے پرے چرچ ‘ سے گزرتے ہوئے سیاحوں کے ایک گروپ کو لے کر ایک ہری بھری گلی کی طرف مڑ جاتی ہیں، جو کچھ فاصلے کے بعد ایک کشادہ صحن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کیفے اور چرچ کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اس سبزہ زار مقام یا نخلستان میں ایک معروف پبلشنگ ہاؤس 'ایڈیسیون دے فم‘ یا 'ویمن ایڈیشن‘ قائم ہے۔ یہ یورپ میں خواتین کا پہلا پبلشنگ ہاؤس یا اشاعت گھر تھا۔ اس کی بنیاد 1970ء کے اوائل میں انٹونیٹ فوق نے رکھی تھی۔ انٹونیٹ فوق فرانس کی 'ویمنز لبریشن موومنٹ‘ ایم ایل ایف بنانے والے مختلف گروپوں میں سے ایک کی قائد بھی تھیں۔

Published: undefined

مینا بریاں 'ویمن آف پیرس‘ نامی ایجنسی کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ اس پبلشنگ ہاؤس کے وجود میں آنے کے بارے میں بتاتی ہیں، ''یہ وہ دور تھا جس وقت فرانس اسقاط حمل کے منشور کے خلاف مظاہروں کی شدت سے لرز رہا تھا۔ جسے حقوق نسواں کے موضوع پر لکھنے والی معروف مصنفہ سیمون دے بووُوآ نے تحریر کیا تھا۔ یہ پبلشنگ ہاؤس آج بھی موجود ہے، بشمول ایک کتب خانے اور ایک گیلری کے۔ اس گیلری میں خواتین مصنفین کی تخلیقات کو متعارف کرایا جاتا ہے۔‘‘

Published: undefined

نظر انداز کی جانی والی خواتین

فرانس کے دارالحکومت میں خواتین مصنفین اور پبلشرز کی جدوجہد اور کامیابیوں کو تلاش کرنے والے دورے کا ایک عمدہ آغاز۔ پبلشنگ ہاؤس سے چند گلیوں کے فاصلے پر، بریاں ایک روشن اپارٹمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہاں 1890 ء میں فرانسیسی مصنفہ زیڈونی گابرئیل کؤلیٹ اور ان کے شوہر ویلی رہا کرتے تھے جو ایک ناشر اور مدیر تھے۔ گابریل کؤلیٹ نے اپنی مقبول ترین کتابیں یہیں بیٹھ کر لکھی تھیں۔ بریاں نے بتایا کہ کؤلیٹ کے شوہر ویلی انہیں ایک کمرے میں کئی کئی گھنٹوں کے لیے بند کر دیا کرتے تھے تاکہ وہ پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ اپنی کتابیں لکھ سکیں، کیونکہ ان کتابوں کی شکل میں وہ کؤلیٹ کی صلاحیت سے پیسے بنایا کرتے تھے۔‘‘

Published: undefined

فرانس میں ملکہ کا امیج برا ہے

2016 میں 'ویمن آف پیرس‘ ٹورز کے سلسلے کا آغاز کرنے والی ہیڈی ایونز نے خواتین کی تاریخ اور شہر کے فنون، تھیٹر، ادب، ثقافت اور سیاست پر ان کے واضح اثر و رسوخ کے بارے میں معلومات آگے بڑھانے کے کام کا آغاز کیا اور مذکورہ شعبوں میں خواتین کے اہم کردار کو اجاگر کرنے کے موضوع پر مبنی واکس کا سلسلہ شروع کیا۔ ایونز کا کہنا ہے، ''فرانس کی تاریخ میں خواتین صدیوں سے پوشیدہ ہی رہی ہیں۔‘‘ لندن میں یہ صورت حال بالکل مختلف ہے۔ وہاں ملکہ سیاحوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز ہوتی ہے، سب سے زیادہ مقبول بادشاہت وہ ہوتی ہے جس کی حکمران عورت ہو۔ مجھے یہ سب سے زیادہ حیران کن لگا کہ فرانس کا اپنی ملکہ کے بارے میں نظریہ کتنا منفی ہے۔‘‘

Published: undefined

فرانس اپنی خواتین کا کتنا کم احترام کرتا ہے، اس کا اندازہ لاطینی کوارٹرز میں ایک پہاڑی پر واقع فرانس کے سب سے بڑے مقبرے Panthéon میں جا کر ہوتا ہے۔ وہاں صرف چند خواتین دفن ہیں۔ طبیعیات دان اور نوبل انعام یافتہ میری کیوری پہلی خاتون تھیں، جنہیں بعد از مرگ 1995ء میں وہاں دفنایا گیا۔ دیگر خواتین ان کے بعد وہاں دفنائی گئیں، جن میں ہولوکاسٹ کے دوران بچ جانے والی اور خواتین کے حقوق کی علامت سیمون ویل بھی شامل ہیں۔ پچھلے برس امریکی نژاد رقاصہ، گلوکارہ اور شہری حقوق کی کارکن جوزفین بیکر پینتھیوں میں دفن ہونے والی پہلی سیاہ فام شخصیت بن گئیں۔ عجائب گھروں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، مثال کے طور پر لوور میں۔ ایونز کا کہنا ہے کہ تقریباً 5 لاکھ آرٹ ورکس یا فن پاروں میں سے صرف 300 خواتین کے بنائے ہوئے تھے۔

Published: undefined

کہانی مکمل طور پر سنائی جانا چاہیے

'ویمن آف پیرس‘ صرف وہ واحد گروپ نہیں، جو پیرس کی تاریخ پر نظرثانی کرنے اور خواتین کے تعاون کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ دوسرے مخصوص گروپ اب عجائب گھر لوور اور 'میوزے ڈورسے‘ نامی عجائب گھر کے ساتھ ساتھ ایک مشہور قبرستان کے دوروں کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔

Published: undefined

تاہم Heidi Evans کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوروں میں جان بوجھ کر لفظ 'نسائیت پسند‘ سے گریز کرتی ہیں تاکہ انہیں وسیع تر پبلک کی توجہ مل سکے، نہ کہ محض سرگرم خواتین کی۔ وہ کہتی ہیں، ''خواتین نے بھی اتنی ہی کامیابیاں اور نام کمائے جتنے کہ مردوں نے۔ میرے خیال میں ماضی کی معروف خواتین مستقبل کے لیے بھی تحریک کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined